Maktaba Wahhabi

52 - 79
3. ’’ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم، قاضی فقیہ عالم، حافظ حدیث تھے۔ حفظِ حدیث میں بہت زیادہ مشہور تھے۔ کسی محدث کے حلقہ میں آ کر بیٹھتے، پچاس ساٹھ حدیثیں سنتے پھر وہاں سے اُٹھتے اور وہ حدیثیں اپنے حافظہ سے لوگوں کو لکھوا دیتے۔ بڑے کثیر الحدیث تھے۔‘‘ [1] 4. ’’قتادہ رحمۃ اللہ علیہ بن دعامہ حفظ میں ضرب المثل تھے جو بات سن لی، کبھی نہ بھولے۔ روایتِ حدیث میں کسی شخص سے کبھی یہ نہ کہا کہ دوبارہ فرمائے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی بہت مدح لکھی ہے اور تفسیر اور اختلاف علماء کا عالم اور فقیہ و حافظِ حدیث تسلیم کیا ہے۔ ان کے حافظہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ میں نے ایک بار صحیفہ جابر رضی اللہ عنہ ان کے سامنے پڑھا، وہ سارے کا سارا ان کو ازبر ہو گیا۔‘‘[2] 5. ’’ابو العلا معری، ذہن و ذکا اور حافظہ میں اعجوبہ روزگار تھے۔‘‘ [3] 6. ’’جودتِ طبع، سیلانِ ذہن اور حفظ و یاد داشت کے متعلق نابیناؤں کی داستانیں حیرت انگریز ہیں۔‘‘ [4] عربوں کا حافظہ تو اعجوبہ روزگار تھا ہی، ہمارے برصغیر میں بھی ایسے نابینا حضرات موجود رہے ہیں جو قرآن کے علاوہ ضخیم کتبِ احادیث کو بھی اپنے سینوں میں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ پرویز صاحب کے اُستاد اسلم جیراجپوری صاحب لکھتے ہیں: ’’اس آخری زمانہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے، البتہ جا بجا سے اندھوں کو بھوپال میں جمع کر کے سلف کے دستور کے مطابق قرآن و حدیث یاد کرنے کے کام پر لگایا تھا اور وظائف مقرر کر دیئے تھے۔ چنانچہ ان کے عہد میں وہاں اس جماعت کی بڑی تعداد تھی۔ بالعموم یہ لوگ قرآن حفظ کر لیتے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ وہاں اندھوں کو ’حافظ جی‘ کہنے لگے بعض بلوغ المرام اور مشکوٰۃ از بر کر لیتے تھے اور اس پر ان کو انعامات ملتے تھے۔ چند ایسے بھی تھے جو بخاری، بلکہ صحاحِ ستہ رکھتے تھے، ان میں سے صاحبِ درس بھی تھے جن کی ذہانت اور حافظہ کے متعلق عجیب و غریب روایتیں وہاں مشہور تھیں۔‘‘[5] چھٹا نکتہ: فاضل درسِ نامی اور مولوی صاحب موصوف اپنے چھٹے نکتے میں وہ
Flag Counter