Maktaba Wahhabi

53 - 79
چیز پیش کرتے ہیں جسے وہ منکرین حدیث کا اصل موضوع، اصل الاصول اور عروۃ الوثقیٰ قرار دیتے ہیں، وہ اس ضمن میں اپنے دو اقتباسات پیش کرتے ہوئے، اس امر پر شاکی ہیں کہ کسی نے بھی اصل موضوع سے تعرض نہیں کیا۔ ان دونوں اقتباسات میں سے میں صرف ایک اقتباس کو پیش کر رہا ہوں کیونکہ دوسرے اقتباس کا مفہوم بھی اسی میں شامل ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے علماء کرام حدیث کو وحی ثابت کرنے کے لئے مضمون تحریر کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں تا حال کسی رسالہ یا کتاب یا ’محدث‘ میں ایسا مضمون تحریر نہیں کیا گیا جس میں حدیث کو وی خفی ثابت کیا گیا ہو۔ اس مضمون میں پھر اسی درخواست کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے علماء کرام حدیث کے وحی ہونے پر کوئی ایسا جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمائیں کہ نام نہاد منکرین حدیث کو اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنے کا موقع فراہم ہو۔‘‘[1] مولوی صاحب موصوف کے اقتباس کو درج کرنے کے بعد اپنے گزشتہ مقالہ میں، میں نے تحریر کیا تھا: ’’منکرین حدیث کے ’’قرآنی فضائل اخلاق‘‘ میں سے ایک بے نظیر وصف یہ ہے کہ اگر آپ ایک مسئلہ کو بیسیوں مرتبہ بھی وضاحت سے بیان کر دیں تو بھی وہ یہی رٹ لائے جائیں گے کہ ’’اب تک کسی نے اس مسئلہ پر روشنی نہیں ڈالی۔ نا معلوم علماء کرام اس مسئلہ کو واضح کرنے سے کیوں ریزاں ہیں۔‘‘ اور پھر جو یائے حق بن کر بڑے ہی معصوم انداز میں درخواست کریں گے کہ ’’کوئی جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمایا جائے۔‘‘ حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر تجاہل عارفانہ سے کام لے کر یہ کہا گیا ہے کہ کسی رسالہ یا کتاب میں وحی خفی کے متعلق دلائل نہیں دیئے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا پرستی کا مسلک چھوڑ کر ہوا پرستی اختیار کرنے والے، خود غرض لوگوں کو کہیں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملا کرتی جو ان کے فکر و مزاج کے خلاف ہو۔ مقالہ نگار اگر واقعی اس مسئلہ کی کھوج کرید میں مخلص ہوتے تو ان کی رسائی اس قلمی مناظرے تک ضرور ہو جاتی جو طلوعِ اسلام کی فکر سے وابستہ ایک فرد ڈاکٹر عبد الودود صاحب اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان واقع ہوا تھا اور جس کی پوری روداد ترجمان القرآن ستمبر ۱۹۶۱ء میں اور پھر بعد ازاں ’سنت کی آئینی حیثیت‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ اس قلمی مناظرہ میں، منکرین حدیث کے جملہ دلائل کا (بالخصوص وحی خفی کے اعتراضات کا) ایسا مسکت، اطمینان بخش اور ایمان افروز جواب دیا گیا تھا (اور ہے) جو بہت
Flag Counter