نہایت غریب ہوں اور چوتھے نے کہا کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی کا دور دورہ ہے۔ آپ نے ہر ایک کو استغفار کرنے کا حکم دیا۔ مجلس سے ایک آدمی نے کہا کہ حضرت ان کے مسائل و مشکلات علیحدہ علیحدہ ہیں، لیکن آپ نے تمام کو لاج اور نسخہ ایک ہی بتایا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ حسن بصری نے فرمایا کہ جناب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سامنے استغفار کرو، وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا، اور تمہیں مال و دولت اور بیٹے بھی دے گا اور باغات بھی تمہیں عنایت فرمائے گا اور نہروں کو بھی جاری کر دے گا۔ (روح المعانی) لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ ہم قانونِ الٰہی سے بغاوت ترک کر دیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی چھوڑ کر صحیح معنوں میں ان اکی اطاعت کی روش اختیار کریں۔ سودی کاروبار، ذخیرہ اندوزی، حرام ذرائع آمدنی، دھوکہ بازی، رشوت خوری اور کرپشن سے باز آنا چاہئے۔ بدکاری سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ أمر بالمعروف و نھی عن المنکر کا فریضہ پوری قوم کو ادا کرنا چاہئے۔ عریانی اور فحاشی کی روک تھام کے لئے اجتماعی کوشش بروئے کار لانی چاہئے۔ ظلم و زیادتی سے گریز کرنا چاہئے اور رشتہ دارروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرنا چاہئے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کی بجائے پورا لینا اور دینا چاہئے۔ اور آج سے اٹھاون سال پہلے جو وعدہ ہم نے اللہ سے کیا تھا کہ اس دھرتی پر تیرا قانون نافذ کریں گے اسے پورا کرنے کے لئے تمام کوششیں صرف کرنا چاہئیں ورنہ آفاتِ آسمانی کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکے گی۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَإِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَديٰ﴾ ’’میں اس شخص کو معاف کر دیتا ہں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور پھر راہِ راست پر آجائے۔‘‘ دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ زلزلے میں جاں بحق ہونے والے اپنے مسلمان بہن و بھائیوں کی مغفرت کے لئے اللہ کے حضور دعا کرنی چاہئے اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں کی بحالی کے لئے ہر قسم کا تعاون کرنا چاہئے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ متاثرین کی بحالی کی مخلصانہ کوششوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرے تاکہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد میں بڑھ چڑھ کر صہ لے سکیں۔ (مزید تفصیل کے لئے: ’محدث‘ مئی ۲۰۰۱ء) |