Maktaba Wahhabi

68 - 79
کا نظام سنبھالیں۔ اگر وہ محض ایس علماء تیار کرتے رہیں گ جو صرف مساجد اور مدارس کا نظام سنبھالنے کے قابل ہوں تو ظاہر ہے یہ علماء ہمیشہ مساجد او مدارس تک ہی محدود رہیں گے، لیکن اگر وہ ایسے علماء تیار کریں جو پورے معاشرے کا نظام سنبھالنے کے قابل ہوں تو پھر وہ مؤثر طریقے سے معاشرے پر اثر انداز ہو سکیں گے اور معاشرے کے نظام کو اسلامی حوالے سے تبدیل کر سکیں گے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام اپنے مدارس میں چند ہزار علمائے کرام تیار کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور وہ ان کروڑوں بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر نہیں کرتے جو اس معاشرے کا جزوِ اعظم ہیں اور جنہوں نے اس معاشرے کو چلانا ہے۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ طلبہ اس معاشرے کا نظام اسلامی نہیں بن سکے گا اور نہ علمائے کرام اس معاشرے پر اور خصوصاً اسے چلانے والے حضرات پر مؤثر طریقے سے اثر انداز ہو سکیں گے۔ یہ کام کیسے ہو سکتا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور اس کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہئے؟ ہم اس بارے میں بھی اپنی معروضات پیش کر سکتے ہیں لیکن فی الحال ہم اس کی تفصیل میں عمداً جانا نہیں چاہتے۔ دینی مدارس چلانے والے علمائے کرام میں بہت پڑھے لکھے، سنجیدہ اور جہاندیدہ افراد موجود ہیں۔ جب وہ اس نقطہ نظر کے قائل ہو جائیں گے تو راستے خود سوچ لیں گے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ وہ اس معاملے میں اُس تناظر میں غور فرمائیں جو ہم نے پیش کیا ہے اور اس سوچ سے آگے بڑھیں کہ اُن کا کام صرف ایسے دینی مدارس چلانا ہے جو مساجد اور مدارس کے لئے افراد تیار کریں۔ جب وہ اس سوچ سے آگے بڑھیں گے تو اُنہیں خود اندازہ ہو جائے گا کہ دینی مدارس اس معاشرے کی اصلاح اور اس کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور جیسا کہ ہماری روایت اور تاریخ ہے، وہ اس کے لئے حکومتوں کے بھی محتاج نہیں۔ مسلم معاشرے اور عوام نے ماضی میں بھی ان کا ساتھ دیا، اس وقت بھی دے رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی دیں گے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم کو اتنی
Flag Counter