Maktaba Wahhabi

67 - 79
2. یہ نظامِ تعلیم علمائے کرام کے ہاتھ میں تھا۔ 3. یہ نظامِ تعلیم پرائیویٹ سیکٹر میں تھا، حکومت کے کنٹرول میں نہ تھا بلکہ حکمران اور عوام اس نظام تعلیم کو چلانے کے لئے علمائے کرام کی معاونت کرتے تھے۔ 4. تزکیۂ نفس یعنی تربیت اس نظام تعلیم کا جزوِ لاینفک تی اور وہ ہر طالب علم کو باعمل مسلمان بناتی تھی۔ 5. یہ نظامِ تعلیم فلاحی بنیادوں پر چلتا تھا تجارتی بنیادوں پر نہیں، گویا یہ خدمت تھی نہ کہ بزنس۔ 6. یہ ایک متحرک، ترقی پذیر، عملی اور کامیاب نظامِ تعلیم تھا یعنی اس میں نصاب اور طریق تدریس ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ یہ معاشرے کے عملی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا یعنی معاشرے کو جو علمائے دین، طبیب (ڈاکٹر)، مہندس (انجینئر)، قاضی (جج)، کلکٹر (مالی منتظم)، وزیر (سیاستدان / منتظم)، معلم (استاد)، تاجر (بزنس مین)، اہل حرفہ (ٹیکنیشن) وغیرہ درکار ہوتے تھے، وہ تیار کرتا تھا۔ وہ معاشرے کی دینی، روحانی اور نظریاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے علمائے کرام بھی تیار کرتا تھا اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لئے ایسے افراد بھی تیار کرتا تھا جو ضروری دینی علم بھی رکھتے تھے۔ باعمل مسلمان بھی ہوتے تھے اور اپنے فن میں بھی ماہر ہوتے تھے۔ یوں وہ علمی اور عملی ہر لحاظ سے ایک کامیابی نظامِ تعلیم و تربیت تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ علمائے کرام کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مذکورہ خطوط پر اسلاف کے قائم کردہ نظامِ تعلیم و تربیت کا احیاء کر دیں اور اپنے مدارس کے نظامِ تعلیم کی اصلاح کر کے اسے اسلاف کے نظامِ تعلیم کے مطابق بنا دیں۔ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ نظامِ تعلیم کی موجودہ ثنویت ختم کر دیں[1]اور یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ ان کا کام صرف ایسے علما تیار کرنا ہے جو مساجد اور مدارس کا نظام سنبھالیں اور ایسے افراد تیار کرنا جو معاشرے کا نظام چلائیں دوسرے افراد کا کام ہے، جن کی اکثریت نہ دین کو سمجھتی ہے اور نہ اس کے تقاضوں کو (اور سمجھتی بھی ہے تو اس پر عمل نہیں کرتی)۔ نہیں بلکہ اہل مدارس کا کام ایسے علماء تیار کرنا ہے جو پورے معاشرے
Flag Counter