ہو جائیں اور اسبابِ دنیا دوسروں سے بہر طور پر حاصل کرنے پر قادر ہو جائیں تاکہ انہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو اور یہ کہ یہ ہدف انہوں نے تعلیم، کتاب و حکمت اور تزکیۂ نفوس (نظام تعلیم و تربیت) کے ذریعے حاصل کرنا ہے، تو اب باقی یہ بات غور طلب رہ جاتی ہے کہ اس کی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کیا ہو؟ اس حکمتِ عملی پر تفصیلی گفتگو چونکہ طوالف کا باعث ہو گی، اس لئے ہم محض چند بنیادی باتوں کی طرف اشارات تک محدود رہیں گے۔ اساسی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے ’الحمد للہ‘ بالانقطاع قائم ہے جس میں ایک ہزار سال تک ہم دنیا پر غالب و برتر رہے ہیں، اس عرصے میں ہمارے اسلاف نے تعلیم و تربیت کے نظام کو جس طرح تشکیل دیا اس کے اہم خصائص اور سنگ ہائے میل یہ رہے ہیں: 1. یہ نظام تعلیم و تربیت مؤحد تھا یعنی اس میں دینی اور دنیاوی علوم کی تدریس الگ الگ اور خانوں میں بٹی ہوئی نہ تھی بلکہ نظامِ علیم میں وحدت تھی کیونکہ اسلامی ورلڈ ویو میں دین و دنیا کی تفریق موجود ہی نہیں۔ صرف ایک آدھ مثال، مثلاً امام فخر الدین رازی جو چھٹی صدی ہجری کے بہت بڑے عالم دین ہیں، وہ مفسر قرآن بھی تھے، فقیہ (ماہر قانون) بھی تھے، فلسفی بھی تھے، ماہر علم الکلام (دینی عقائد و مسائل کو عقل کے مطابق ثابت کرنا) بھی تھے، طبیب بھی تھے، کیمیا دان (یعنی سائنسدان) بھی تھے، ماہر فلکیات (اسٹرالوجسٹ) بھی تھے۔ مہندس (انجینئر) بھی تھے، مؤرخ بھی تھے، لغوی بھی تھے، پامسٹ (ہاتھ کی لکیروں کے ماہر) بھی تھے اور عامل (ماہر طلسم و نیر نجات و قیافہ، آج کل یہ اُمور علم البشر (ANTHROPOLOGY) کا ایک حصہ سمجھے جاتے ہیں) بھی تھے۔[1] برصغیر ہندوستان کی ایک مثال لیجئے کہ ضرت مجدد الف ثانی (بہت بڑے عالم دین)، نواب سعد اللہ (ہندوستان کی مرکزی حکومت کے وزیر اعظم گویا بڑے سیاستدان اور منتظم) اور احمد معمار لاہور (بہت بڑے سول انجینئر اور ماہر تعمیرات (آرکیٹیکٹ) جنہوں نے آگرہ کا تاج محل بنایا، یہ تینوں ہم درس تھے۔[2] |