اور تعلیم و تربیت کے ذریعے بنانا ہے تو اس کا دائرۂ کار اور طریق کار کیا ہونا چاہئے؟ پیشتر اس کے کہ ہم اس موضوع پر ذرا تفصیلی گفتگو کریں، یہ ذہن میں رہے کہ نظامِ تعلیم و تربیت کے دائرہ کار، حکمتِ عملی اور سا کی تفصیلات کا انحصار دو بنیادی اُصولوں پر ہوتا ہے: ایک اس معاشرے کے ورلڈ ویو (تصورِ انسان، تصورِ کائنات اور تصورِ الٰہ) پر اور دوسرے اس کے نظامِ تعلیم و تربیت کے اہداف و مقاصد پر۔ مسلمانوں کا ولڈ ویو ہے: توحید، رسالت اور آخرت اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے عبد ہیں اور ہمیں اس دنیا کی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزارنی ہے تاکہ وہ ہم سے رای ہو جائے اور ہم آخرت میں اس کی خوشنودی کے مستحق ٹھہریں۔ اب دنیا کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے دار الاسباب بنایا ہے لہٰذا دنیا میں کامیابی کے لئے (اللہ کی نصرت و تائید کے بعد) جو بات ضروری و ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسبابِ دنیا فراہم اور مہیا کرنے کی صلاحیت غیر مسلموں سے بہتر و برتر ہو۔ یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے اپنے نظریۂ حیات سے مستحکم وابستگی کے نتیجے میں۔ چنانچہ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمان دین سے صحیح معنوں میں جڑ گئے تو ان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو گئی اور اُس وقت کی سپر پاورز اُن کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور کئی صدیوں تک مسلمان دنیا پر چھائے رہے اور وہ سیاست، معیشت، معاشرت اور تہذیب و تمدن میں ساری دنیا سے آگے نکل گئے۔ گویا آج علمائے کرام اور دینی قوتوں کو جو چیلنج درپیش ہے اور ان کے سامنے جو ہدف ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے دن اور نظریۂ حیات سے اس محکم طور پر وابستہ کر دیں کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی ہر پہلو سے اللہ کے احکام کے مطابق گزاریں اور دنیاوی اسباب دوسروں سے بہتر طور پر مہیا کرنے پر قادر ہو جائیں تاکہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی، گو اصل کامیابی تو آخرت ہی کی ہے۔ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کا ورلڈ ویو توحید، رسالت اور آخرت ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے اپنے دین سے محکم طور پر اس طرح وابستہ ہو جائیں کہ وہ دنیاوی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزارنے کے قابل |