بات یہاں ختم نہیں ہوتی اور ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں، مثلًا یہ کہ اس صورتِ حال کی اصلاح کیسے ہو گی، یہ اصلاح کون کرے گا اور کیا اس اصلاح میں دینی مدارس کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے؟ آئندہ سطور میں ہم انہی سوالات کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کریں گے: اس بارے میں دورائیں نہیں ہو سکتیں کہ مسلم معاشرے کو اسلام پر قائم رکھنا تاکہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزاریں، بنیادی طور پر علمائے کرام کی ذمہ داری ہے، خصوصاً جب مسلم حکمران یہ کام کرنے اور اس میں معاون بننے کی بجائے بگاڑ پر تل جائیں تو معاشرے کو اسلام پر قائم رکھنے کی ساری ذمہ داری دینی عناصر اور علمائے کرام کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ علمائے کرام یہ کام کیسے کریں؟ اُنہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ دن رات قرآن و حدیث پڑھتے، پڑھاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کا منصوص اور مسنون طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء خصوصاً آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور سکھایا اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی عمل کیا یعنی تعلیم کتابت و حکمت اور تزکیۂ نفوس[1]یا آج کی اصطلاح میں تعلیم و تربیت۔ جب افرادِ معاشرہ کی اصلاح ہو گی تو معاشرے اور اس کے نظام کی بھی اصلاح ہو جائے گی کیونکہ معاشرہ افراد ہی سے مل کر بنتا ہے اور اس کے نظام کو افراد ہی چلاتے ہیں۔ یہ کام صبر طلب اور دِقت طلب ضرور ہے لیکن ایک تو منصوص ہے دوسرے معقول ہے یعنی عقل و دانش کے تقاضوں کے بھی عین مطابق ہے کیونکہ یہ پُر امن اور آئینی ہے اور اس کے نتائج مستقل اور دیرپا ہوتے ہیں اور اس سے اُن افراد کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے جو حکومت چلاتے ہیں۔ (غیر صالح مسلم حکمرانوں کو سیاسی قوت سے ہٹا کر ان کی جگہ لینے کے لئے علماء اور صلحاء نے جب بھی کوششیں کیں، وہ ناکام رہیں۔ ماضی بعید میں بھی، ماضی قریب میں بھی اور آج کل بھی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کے بار آور ہونے کی بھی کوئی توقع نظر نہیں آتی۔ اس مظہر کے اسباب و علل کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔) اب سوال یہ ہے کہ جب علمائے کرام نے موجودہ غیر اسلامی معاشرے کو اسلامی بنانا ہے |