مُحتظر کی بھیڑیں ﴿ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ﴾ کا مصداق بنتے ہوئے صرف اپنے حلقہ ہی کی دعاوندا سنتی رہیں۔ اگر طلوعِ اسلام اس وقت (یعنی دورانِ مباحثہ و مناظرہ) دو طرقہ خط و کتابت کو شائع کرنے کی جرأت نہیں کر سکا تو آج وہ یہ جرأت کیسے کر سکتا ہے؟ پھر وابستگانِ طلوعِ اسلام اور اس کے کار پردازوں کے اخلاق و کردار سے یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے مخالف کے موقف کو بلا کم و کاست، صحت و دیانتداری کے ساتھ اپنے رسالہ میں شائع کریں گے جیسا کہ ماضی کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ ہاں اگر وہ طلوعِ اسلام میں دو طرفہ مباحث کو بغیر قطع و برید کے صحیح صحیح شائع کرنے کے یقین دہانی (طلوعِ اسلام ہی میں) کرا دیں تو مولوی صاحب کے چیلنج کو قبول کیا جا سکتا ہے اور پھر ان شاء اللہ تعالیٰ پرویز صاحب ہی کی تحریروں سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ: 1. وحی صرف قرآن ہی میں منحصر نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ بھی وحی کی جاتی تھی جس کی مختلف صورتیں تھیں۔ 2. پرویز صاحب اپنے دورِ ماضی میں کس طرح کتاب و سنت یا قرآن و حدیث کو سرچشمہ ہدایت اور اَدلہ شرعیہ مانا کرتے تھے اور سا نقطہ نظر کی حمایت میں خود منکرین حدیث کی تردید میں مضامین و مقالات لکھا کرتے تھے۔ 3. پھر کس طرح وہ اپنے ان نظریات سے دست بردار ہوتے چلے گئے جو اُمت مسلمہ کے علماء سلف و خلف کی ہم نوائی میں مصلحت یا منافقت کا لبادہ اوڑھ کر پیش کیا کرتے تھے اور کس طرح پینترا بدلتے ہوئے وہ نظریات ظاہر کرتے چلے گئے جنہیں وہ اپنے قلب و ذہن میں مستور و مخفی رکھا کرتے تھے۔ 4. کس طرح وہ ’محاورۂ عرب‘ کے نام پر الفاظِ قرآن میں ’معانیٔ عجم‘ پیدا کیا کرتے تھے۔ 5. کس طرح وہ تصریفِ آیات کی آڑ میں (معنی و مفہوم کے اعتبار سے) تحریفِ آیات کیا کرتے تھے۔ 6. اور کسی طرح وہ قواعدِ زبان (اُصولِ صرف و نحو) کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قرآنی آیات میں معنوی تحریف کیا کرتے تھے۔ |