Maktaba Wahhabi

60 - 79
گزرا‘ مگر ان ناکافی معلومات کے باوجود وہ بڑی بلند آہنگی سے دعویٰ یہ فرماتے ہیں: ’’اصل موضوع جو سب (نام نہاد) منکرین حدیث کا اصل الاصول اور عروۃ الوثقی ہے کہ ’’حدیث وی ہے اور وحی صرف قرآن میں ہے‘‘ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے ہمارے علمائے کرام ہمیشہ بچتے رہے اور اجتناب کرتے رہے ہیں۔‘‘[1] دسواں نکتہ: اپنے دسویں نکتہ میں مولوی صاحب موصوف اپنے ’عروۃ الوثقیٰ‘ موضوع پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے سے شائع شدہ تحریروں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے (اور جناب غازی عزیر مبارکپوری کے اسی موضوع پر موجود مقالے کو نہ جانتے ہوئے) بایں الفاظ چیلنج دیتے ہیں: ’’میں اپنی تمام تر عاجزی، تواضع، انکساری اور فروتنی کے باوجود اپنے بزرگ بھائی جناب پروفیسر (مولوی) محمد دین قاسمی اور ان کی معرفت تمام علماء اسلام کی تحدی (Challenge) کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پر کوئی جامع و مبسوط مضمون تحریر فرمائیں۔ وإن لم تفعلوا ولن تفلعوا‘‘[2] اب اس ’فاضل درسِ نظامی‘ مولوی صاحب کو یہ کون سمجھائے کہ خدائی لب و لہجہ میں دیئے جانے والے اس چیلنج سے بہت پہلے سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’جامع و مبسوط مضمون‘ کیا بلکہ منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات و اشکالات کا مفصل جواب ’ترجمان القرآن‘ ستمبر ۱۹۶۱ء کے شمارہ میں اور ’سنت کی آئینی حیثیت‘ نامی کتاب کے ۳۹۲ صفحات پر پیش کر چکے ہیں۔ چونکہ اس قلمی مباحثہ نے منکرین حدیث کے غبارۂ استدلال کی ساری ہوا نکال دی تھیں، اس لئے اپنے حلقہ کے لوگوں میں اس غبارے کو ہوا سے بھرا ہوا ظاہر کرنے کے لئے بار بار یہ لوگ اپنے اس پراپیگنڈے کو دہراتے چلے جاتے ہیں کہ ’’علماء کرام اس موضوع پر لکھنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔‘‘ تاکہ طلوعِ اسلام کے قارئین کو اپنے اس یک طرفہ یلغاری پراپیگنڈہ کے خول میں بند رکھا جائے اور ان تک اپنے مخالفین کے روشن موقف کی کوئی کرن نہ پہنچنے پائے، اسی لئے اس پورے قلمی مباحثہ کو من و عن طلوعِ اسلام میں شائع نہیں کیا گیا (حالانکہ منکرین حدیث کے مُباحث ڈاکٹر عبد الودود صاحب اس کی اشاعت کا وعدہ کر چکے تھے) تاکہ طلوعِ اسلام کے
Flag Counter