اور دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اور چوتھا پانچویں کو اور پانچواں چھٹے کو پہنچا دے تو وہ ان اصحابِ ستہ کو ایک ایک ہزار روپیہ انعام دے گے تو یقیناً دنیا کی اس حقیر سی منفعت کی خاطر ہر شخص بلا کم و کاست قولِ پرویز کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کرے گا (بلکہ عجب نہیں کہ اس انعام کو پانے کی خاطر جملہ پیروانِ پرویز اس سلسلۂ رواۃ میں جگہ پانے کی کوشش کریں) لیکن ان صحابہ کرام کے متعلق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کی افضل ترین ہستی باور کرتے تھے اور جن کے دہن مبارک سے نکلنے والی ہر بات کو وہ سراپا حق مانتے تھے اور جن کے فرمودات و معمولات کی پیروی کو دنیا وما فیہا سے قیمتی تسلیم کرتے تھے اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور سرفرازی کی ضمانت قرار دیتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے ابناء و احفاد اور طلبہ و تلامذہ (تابعین و تبع تابعین) کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ آپ کے فرامین و افعال اور اقوال و اعمال کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو اگلی نسلوں تک بلا کم و کاست پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے، فلہٰذا وہ لا اُبالی پن اور سہل انگاری کا شکار تھے، بس یونہی احیاناً لمحاتِ فرصت میں دل بہلاوے کے طور پر ان کا ذِکر کر لینے کے سوا ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، یہ سوچنا خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے محبانِ رسول کے خلاف، انتہائی گھٹیا درجے کی بد گمانی ہے۔ مزید برآں یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ احادیث کی روایت پر یہی اعتراض جسٹس ایس اے رحمٰن نے بھی اُٹھایا تھا۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا بھی تفصیلی جواب ’سنت کی آئینی حیثیت‘ میں دیا ہے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ ہمارے فاضل درس نظامی مولوی صاحب آج س عرصۂ دراز پہلے کے پڑھے ہوئے قلمی مباحثہ و مناظرہ کے محویات کو یاد نہیں رکھتے اور پھر اس کے بارے میں یہ غلط خلاصہ بیان کرے ہیں کہ ’اس کا موضوع صرف سنت کی آئینی حیثیت تھا‘ اور پھر بڑے دھڑلے سے یہ کہتے ہیں کہ ’’اس سارے مباحثہ میں ایک لفظ بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے بارے میں نہیں‘‘ حالانکہ میں آٹھویں نکتہ کے ضمن میں، ان سترہ عنوانات کو پیش کر چکا ہوں جن میں وحی (اور بالخصوص وحی غیر متلو) کے بارے میں مولانا مرحوم نے مسکت دلائل دیئے تھے۔ ابرہا مدیر ’محدث‘ کے اضافی پیرا گراف میں غازی عزیر مبارک پوری کے مقالہ کا حوالہ تو اس کے متعلق مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ’وہ میری نظر سے نہیں |