Maktaba Wahhabi

58 - 79
میں املا کروا دیا کرتے تھے اور اس اُعجوبہ روزگار حافظہ کو مان لینے کے بعد بھی کہ صحیفہ جابر کو محض ایک بار سنا او ذہن نشین ہو گیا۔ یہ کہنا کہ یکے بعد دیگرے چھ راویوں کے ذریعہ پہنچائی جانے والی بات کا (خواہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بات کیوں نہ ہو) اپنی اصل شکل میں محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔ در حقیقت نہ ماننے کے لئے بے جا ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہے۔ مزید بر آں یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی از حد غیر معمولی شخصیت کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عقیدت و محبت کے ساتھ وابستگی کا بھی انتہائی پست اور گھٹیا انداز ہے، جو اپنی آنکھوں سے خود یہ مبارک انقلاب دیکھ رہے تھے کہ آپ کی قیادت میں وہ لوگ پستیوں کی کن اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر شائستگی و پاکبازی کی کن رفعتوں پر پہنچ گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن نبوت کے ساتھ وابستگی نے اُنہیں کس طرح ہر نوع کی عداوتوں کے جہنم سے بچا لیا اور ایمان کی بنیاد پر اُنہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ایک ایسی اُمت میں تبدیل کر دیا جس نے چند ہی سالوں میں وقت کی دو بڑی طاقتوں کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور تقریباً اَسّی سال کی قلیل مدت میں ایک چوتھائی رقہ زمین پر حق و صداقت اور عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ایسی رفیع الشان اور بلند پایہ ہستی کے بارے میں یہ تاثر اچھالتے رہنا، منصبِ رسالت کی انتہائی حقیر و توہین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بس ایک عام سے فرد بشر تھے، جس کے فوت ہونے کے بعد یونہی کبھی کبھار فرصت کے اوقات میں دل بہلانے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی گفتگوؤں کے درمیان آپ کا تذکرہ بالکل اسی طرح چھیڑ دیا کرتے تھے جس طرح ہمارے ہاں کسی فوت شدہ بزرگ خاندان کا ذکر چھڑ جایا کرتا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ اپنی محبوب ترین شخصیت سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے فرصت کے اوقات میں دو چار جب مل کر بیٹھتے تو آپ کے زمانے کے تذکرے درمیان میں لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرتے۔‘‘[1] پھر جس بات کو ‘فاضل درسِ نظامی‘ ناممکن قرار دے رہے ہیں وہ عقلاً بالکل ممکن ہے۔ آج اگر خود پرویز صاحب زندہ ہوتے اور کسی کو یہ فرض سونپتے کہ وہ ان کی بات کو خود انہی کے الفاظ میں یا اس کے اصل معانی کو تبدیل کیے بغیر اپنے الفاظ میں دوسرے شخص تک پہنچا دے
Flag Counter