(۱) کیا حضور پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ (۲) ما أنزل اللہ سے کیا مراد ہے؟ صرف قرآنی وحی یا خارج از قرآن وحی بھی؟ (۳) وحی سے مراد کیا چیز ہے؟ (۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف شارحِ قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟ (۵) ازروئے قرآن وحی کی اقسام کیا ہیں؟ (۶) کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟ (۷) وحی غیر متلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جز ہے۔ (۸) کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟ (۹) وحی بلا الفاظ کی حقیقت و نوعیت (۱۰) وحی متلو اور غیر متلو کا فرق (۱۱) نبی کی اصل حیثیت ازروئے قرآن (۱۲) کیا وحی صرف قرآن تک ہی محدود ہے؟ (۱۳) کیا قابل اعتماد صرف لکھی ہوئی چیز ہی ہوتی ہے؟ (۱۴) کیا احادیث اڑھائی سو سال تک گوشہ خمول میں پڑی رہیں؟ (۱۵) کیا حافظہ سے نقل کی ہوئی روایات نا قابل اعتماد ہیں؟ (۱۶) احادیث کے محفوظ رہنے کی اصل علت (۱۷) صحتِ احادیث کا اہم ثبوت ان عنوانات میں سے کچھ وہ ہیں جو مباحثہ و مناظرہ سے متعلق ہیں اور کچھ وہ ہیں جو جسٹس ایس اے رحمٰن کے ایک غلط فیصلے پر مولانا کی تنقید سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ہر وہ شخص جو مسلکِ انکارِ حدیث کے حق میں تعصب اور ضد سے بالا تر ہوتے ہوئے اور خوفِ خدا کے زیر سایہ طالبِ ہدایت بنتے ہوئے اس کتاب کا مطالعہ کرے گا، وہ حق کو قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نواں نکتہ: اپنے نکتہ نہم میں مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں: ’’اڑھائی سو سال تک جو الفاظ پشت در پشت اور نسلاً بعد نسل ایک زبان سے دوسری، دوسری سے تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی زبان تک منتقل ہوتے آرہے ہوں، ان کا اپنی اصلی شکل میں موجود رہنا بالکل نا ممکن ہے۔[1] طلوعِ اسلام کی فائل میں یہ اعتراف کر لینے کے بعد بھی کہ عربوں میں حافظہ و یاد داشت کی قوت حیرت انگریز حد تک مضبوط تھی (جس کا ذِکر پانچویں نکتے پر بحث میں کیا جا چکا ہے) یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قضایا و فتاویٰ کو لوگوں نے از بر کر کر کے دستوری حیثیت عطا کی اور ایسے بلا کا حافظہ رکھنے والے محدثین کا وجود تسلیم کر لینے کے باوجود بھی جو ایک مجلس میں پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ احادیث سننے کے بعد، بغیر کسی لکھا پڑھی کے، اُنہیں دوسری مجلس |