Maktaba Wahhabi

56 - 79
کے اس علمی بد دیانتی (Inellectual Dishonesty) کی تصدیق کر سکتا ہے۔‘‘ [1] بہرحال فاضل درسِ نظامی نے جس علمی بد دیانتی کا مجھے مرتکب قرار دیا ہے، الحمد للہ اللہ کے نزدیک میرا دامن اس سے پاک ہے۔ واللہ علٰی ما أقول شھید، لیکن میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر آپ ایک نظر ’مفکرِ قرآن‘ جناب چوہدری غلام احمد پرویز کی ان بد دیانتیوں پر بھی ڈال لیتے جن کا ریکارڈ طلوعِ اسلام کے صفحات میں محفوظ ہے تو آپ اس سے کہیں زیادہ حیرت کا اظہار فرماتے جتنا آپ نے میری ’بد دیانتیوں‘ اور ’مغالطہ آرائیوں‘ پر کیا ہے (بشرطیکہ آپ انصاف سے کام لیں)۔ تاہم فی الحال میں ان بد دیانتیں سے صرفِ نظر کرتا ہوں، اگر آپ کی طرف سے حکم ہوا تو میں تعمیل ارشاد میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ آٹھواں نکتہ: مولوی ازہر عباس صاحب کا آٹھواں نکتہ منکرین حدیث کے ’اصل الاصول‘ اور ’عروۃ الوثقیٰ‘ یعنی یہ کہ ’حدیث وحی غیر متلو ہے‘ کی بابت ہے جس کا حوالہ میں نے ترجمان القرآن ستمبر ۱۹۶۱ء اور ’سنت کی آئینی حیثیت‘ قرار دیا تھا۔ اس پر وہ فرماتے ہیں: ’’میرے بزرگ دوست جناب پروفیسر قاسمی صاحب نے ایک تو جناب مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر عبد الودود صاحب کے قلمی مباحثہ کا ذِکر فرمایا ہے۔ اس وقت وہ رسالہ میرے پاس نہیں ہے۔ عرصہ ہوا پڑھا تھا، لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے، اس مباحثہ کا موضوع ’سنت کی آئینی حیثیت‘ تھا۔ اس سارے مباحثہ میں ایک لفظ بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے موضوع پر نہیں ہے۔‘‘[2] میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کچھ کہتے ہوئے مولوی صاحب موصوف بد دیانتی سے کام لے رہے ہیں، کیونکہ جس چیز کو عرصۂ دراز قبل پڑھ کر آج اس کے متعلق خلافِ حقیقت بات کر رہے ہیں تو یہ ان کے ذہول و نسیان کا نتیجہ ہے۔ اس میں مولانا مرحوم نے ڈاکٹر عبد الودود صاحب کے جملہ سوالات و اعتراضات کا وافی کافی شافی جواب دیا ہے اور منکرین حدیث کے اس نظریہ کی تغلیط کی تھی کہ ’’وحی صرف قرآن ہی میں ہے اور خارج از قرآن وحی کا کہیں وجود نہیں ہے۔‘‘ میں آپ سے مستفسر ہوں کہ چوالیس سال پہلے کا ترجمان القرآن آپ کے لئے عسیر الحصول ہے تو بازار سے آپ کو ’سنت کی آئینی حیثیت‘ بھی نہیں مل سکتی؟ اس کتاب میں آپ کے عروۃ الوثقی اور اصل الاصول موضوع پر اطمینان بخش بحث موجود ہے۔ اگر آپ پوری کتاب نہیں پڑھ سکتے تو مندرجہ ذیل عنوانات ہی غور سے مطالعہ فرما لیجئے:
Flag Counter