7. اور کس طرح وہ اپنے مخالف کے معقول اور صحت مند اعتراض سے بچنے کے محرک کے تحت وہ خود بدلنے کی بجائے مفہومِ آیت ہی کو تغیر کی بھینٹ چڑھا دیا کرتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے: ’’میرا ہمیشہ یہ انداز رہا ہے کہ میں پہلے سے کوئی خیال قائم کر کے قرآن کے اندر نہیں جاتا میں ایک سوال کو سامنے رکھتا اور خالی الذہن ہو کرکوشش کرتا ہوں کہ مجھے قرآن سے اس کا کوئی حل مل جائے۔‘‘[1] 8. اور کس طرح اپنے ہر بدلتے ہوئے مفہوم کے ساتھ وہ نہ صرف تفسیری موقف کو بلکہ ترجمہ آیت کو بھی بدل ڈالا کرتے تھے۔ اور آخر میں: اور مضمون کے آخر میں مولوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ’’آخر میں، میں پروفیسر قاسمی صاحب کو اپنا بھائی سمجھ کر یہ درخواست کروں گا کہ انہوں نے جو (۱) خدا پرستی کا مسلک چھوڑنے والا (۲) ہوا پرست (۳) خود غرض (۴) پرکار (۵) ضدی اور ہٹ دھرم کے الفاظ میرے متعلق تحریر فرمائے ہیں، بہتر ہو گا کہ آئندہ اس سے اجتناب فرمائیں کیونکہ مسلمان کا کیا کام کہ کسی دوسرے کا دل دکھائے۔‘‘[2] میں عرض کئے دیتا ہوں کہ ’میں فاضل درسِ نظامی‘ مولوی ازہر عباس کا نام لے کر میں نے کہیں یہ الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں۔ عمومی انداز میں بغیر کسی کا نام لیے یہ الفاظ میرے مقالہ میں مستعمل ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح قرآن میں نام لئے بغیر جامع اُسلوب میں لعنة اللہ علٰی الکٰذبین یا إن اللہ لا یحب الظّٰلمین کے الفاظ آئے ہیں۔ میں نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں، اگر مولوی صاحب واقعتاً اس کا مصداق ہیں تو اُنہیں اپنی اصلاح فرمانی چاہیے، اگر وہ ان کا مصداق نہیں ہیں تو پھر اُنہیں خوا مخواہ ان الفاظ کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔ میں خود مولوی صاحب محترم سے درخواست گزار ہوں کہ ایک نظر جناب پرویز صاحب کی ان نگارشات پر بھی ڈال لیں جو اُنہوں نے علماء اُمت کے خلاف بالعموم اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف بالخصوص لکھی تیں۔ اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ’مسلمان کا کیا کام کہ کسی دوسرے کا دل دکھائے‘ پر وہ کس حد تک عمل پیرا رہے ہیں۔ |