حدثنا أبو أحمد الزبیری حدثنا الولید بن جمیع حدثتنی جدتی عن اُم ورقۃ ٭ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : عن الوليد بن جميع قال حدثتني جدتي وعبدالرحمٰن بن خلاد الأنصارى عن اُم ورقة بنت عبدالله ٭ ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی سند سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ ان تمام اسانید کے تناظر میں دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس حدیث کا مرکزی راوی الولید بن جمیع ہے جو اپنی دادی سے روایت کرتا ہے جس کی متابعت عبدالرحمن بن خلاد الانصاری نے بھی کی ہے۔ زیر نظر سطور میں ہم الولید کے حالات بیان کرتے ہیں : ٭ الولید بن عبداللہ بن جمیع کے متعلق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :لابأس به ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور امام زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: لابأس به ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صالح الحدیث کہا ہے۔ان کے برعکس عمرو بن علی کا بیان ہے کہ ”یحییٰ بن سعید القطان ہمیں اس سے حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔ “ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ التہذيب (11/122) میں مذکورہ تمام اقوال کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ” ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعفا میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ابن جمیع ثقات سے بعض ایسی چیزیں بیان کرنے میں منفرد ہے جو ثقات کی بات سے مو افق نہیں ہوتیں اور اس سے بکثرت یہ امر سرزد ہوا ہے ، لہٰذا اس کی حدیث سے استدلال کرنا باطل ہے۔ “ میرے خیال میں اسی لیے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے : هذه سنة غريبة لا أعرف في الباب حديثا مسندًا غير هذا ”یہ اس باب میں ایک غیر مانوس سنت ہے،میں اس حدیث کے علاوہ کسی مسند حدیث کو نہیں جانتا۔“ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ”اسکی حدیث میں اضطراب ہے۔“امام بزار رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق کہا ہے کہ” علمانے اس سے حدیث لی ہے ، البتہ اس میں شیعیت پائی جاتی ہے۔“امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ”اگر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ان سے روایت نہ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔“ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التقريب(رقم: 7482) میں اس اختلاف کا خلاصہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:صدوق يهِمُ رُمي بالتشيع |