Maktaba Wahhabi

97 - 142
اقوام کا رعب قائم رہے۔[1] اسلام مقابل کے خلاف حتیٰ المقدور جنگی تیاری کا مسلمانوں کو پابند ٹھہراتا ہے۔(ايضاً)اس لحاظ سے مسلمانوں کی موجودہ برتر حربی صلاحیتوں کا حصول اس دفاعی حکمت ِعملی کا حصہ ہے جو ان کے پرُ امن وجود کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی جارحانہ کی بجائے دفاعی ہے تاکہ غیر مسلموں کو مسلمانوں پر زیادتی کاموقع نہ مل سکے۔ غرض موجودہ جنگی سائنسی ترقی بھی، جو مقابل کو عبرت آموز ہلاکت سے او رایسے قتل عام سے دوچار کردے کہ اس سے ان کی آئندہ نسلیں مسخ ہوجائیں ، اسلام اور مسلمانوں کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ یہ صلاحیت اور اس کا استعمال انسانی حقوق کے چمپئن امریکہ اور اس کے حواریوں کو ہی مبارک ہو۔ لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ مسلمان دفاعی تیاری بھی نہ کریں ۔ بلکہ اسلام تو انہیں اس حد تک اقدامی تیاری رکھنے کا پابند ٹھہراتا ہے جس سے ﴿تُرْهِبُوْنَ بِهِ عَدُوَّاللهِ وَعَدُوَّكُمْ﴾ اور نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ (بخاری: 335) کے الٰہی و نبوی فرامین کے تقاضے پورے ہوجائیں ۔ (3) تصورِ فلاح اسلام کا تصورِ فلاح اہل یورپ کے تصورِ فلاح سے یکسر مختلف ہے۔ تصورِ فلاح کا یہ فرق بھی دونوں قوموں (اسلام اور کفر)کے رجحانات میں زمین آسمان کا فرق پیدا کردیتا ہے۔ اوّل تواسلام میں کامیابی کا تصور صرف دنیاوی نہیں بلکہ اس میں دنیا کو متاعِ قلیل اور مستقر الی حین[2] اورآخرت کو دارالقرار[3]قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی رو سے کامیاب وہ ہے جو ﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ لَتُبْلَوُنَّ فِىْ أَمْوَالِكُمْ وَأنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ أُوْتُوْا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ أَشْرَكُوْا أذًى كَثِيْرًا ﴾(آل عمران : 185) ” جو آگ سے بچالیا گیااور جنت میں داخل کردیا گیا گویا وہی کامیاب ہوگیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا ہی سامان ہے۔ یقینا تمہارے مالوں اور جانوں میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔اور ضرورتمہیں سابقہ اہل کتاب اور مشرکین سے اذیتیں اور تکالیف اُٹھانا ہوں گی۔“
Flag Counter