Maktaba Wahhabi

96 - 142
(2) تصورِ جنگ موجودہ سائنس کا ایک اہم مظہر حربی آلات کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔ جن کی بدولت مغربی اقوام کو دنیا پر سیاسی برتری حاصل ہے۔ ہولناک اور خوفناک صلاحیت رکھنے والے جنگی آلات اور ہتھیار اس سائنسی صلاحیت سے ہمیں حاصل ہوئے ہیں جس کو غیرمسلموں نے پروان چڑھایا۔ یہاں بھی مسلم اور غیر مسلم حربی نقطہ نظر اور تصورات کافر ق نتائج میں بہت بعد پیداکردیتا ہے۔ مسلمان موجودہ ٹیکنالوجی پر قبضہ و اختیار کے باوجود اپنے عقائد اور دینی ہدایات کی رو سے ایسے ہولناک ہتھیار بنانے سے گریز کرنے پر اپنے آپ کو مجبورپاتا ہے۔ مغربی اقوام ’تنازع للبقا‘ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ غیر مسلم اقوام کے ہاں جنگ میں مدمقابل پر ہر طرح کا ظلم و ستم جائزہے۔ مقابل کو خوفناک ہلاکت سے دوچار کرنا، شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا اور خون کی ندیاں بہا دینا غیرمسلموں کا جنگی اُسلوب تو ہوسکتا ہے، اسلام تو جنگ میں بھی مختلف انداز سے امن و سلامتی اور احترام کے اُصول ہمیں عطا کرتا ہے۔ عہد ِنبوی، خیرالقرون او راسلامی تاریخ میں مسلمان فاتح کا اپنے مفتوح سے حسن سلوک پر مبنی تعلق ایسا امتیاز ہے جن کا منصف مزاج موٴرخین نے ہمیشہ اعتراف کیا ہے۔ اسلام جنگ میں درختوں کو آگ[1] لگانے بچوں اور عورتوں کو ہلاکت سے دوچار [2]کرنے اور غیرمقاتلین کے قتل عام اور مثلہ[3] سے ہمیں منع کرتا ہے۔ یہاں دنیا کی مہذب قوموں کی تہذیب پسندی کا پردہ چاک ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقابل کو کوئی انسانی رو رعایت دینے کو تیارنہیں ۔ اس بربریت ووحشت کی تازہ مثالیں اس جدیدترین دور میں افغان و عراق کی امریکی جارحیت اور ہیروشیما وناگاساکی کی تباہی میں بخوبی موجود ہیں ۔ مسلمان اپنے عقائد و نظریات اور اسلامی ہدایات کی رو سے ایٹمی صلاحیت کے حامل ایسے ہتھیارجو انسانیت کو عبرت آمیز ہلاکت سے دوچار کردیں ، بنانے پر قادر نہیں ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلمان مقابل کی جنگی قوت کا دفاع نہ کرسکیں بلکہ اسلام مسلمانوں کو اس قدر جنگی طاقت حاصل کرنے کا پابند قرا ردیتا ہے جس سے مخالف پر دھاک جمی رہے اور مسلم
Flag Counter