Maktaba Wahhabi

98 - 142
اسلام کا یہ تصورِ فلاح صرف اُخروی نہیں بلکہ اس میں دنیا کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ لیکن یہاں دنیا کبھی کل مقصد نہیں رہی۔ جہاں تک اسلام کے دنیوی تصور فلاح کا تعلق ہے تو وھ بھی موجودہ مغربی تصورِ کامیابی سے سراسر مختلف ہے ۔ جدید دنیا میں کامیابی اور فلاح کا تصور یہ ہے کہ مال و دولت اور سامانِ تعیشات کی فراوانی ہو۔ دنیاوی لذتوں سے فیض اُٹھانے کے کھلے اور بے روک ٹوک مواقع میسر ہوں ۔٭ اس تصورِ فلاح کے سب سے زیادہ حقدار شاہانِ وقت قرار پاتے ہیں گو کہ موجودہ حکمران نہیں ، چند صدیاں قبل کے حکمران اس کے درست مصداق بنتے ہیں ۔لیکن ذرا غور کریں تو اندازہ ہوگاکہ اس ظاہری مسرت اور فلاح کے پس پردہ کتنی محرومیاں اور بے سکونیاں مچل رہی ہوتی ہیں ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ مالدار شخص جن ذرائع سے مال حاصل کرتا ہے، اس کے حصول کے دوران دوسرے سے روا رکھی جانے والی زیادتی اس کے ضمیر پر کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ مالدار اشخاص عموماً دلی سکون و اطمینان سے محروم ہوتے ہیں ۔ دولت کی یہ فراوانی ہوس میں اضافہ کرتی اور دل کا سکون چھین لیتی ہے۔ اور مالدار شخص ہردم مال کے اضافے[1] کی جستجو میں رہتا ہے۔ مالدار لوگ اپنے مال سے فیض اُٹھانے کی صلاحیت سے محروم بھی ہوتے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں فلاح کا تصور مال ودولت کے ساتھ اختیارات سے بھی وابستہ ہے۔ برتر اختیارات رکھنے والا ایسا شخص بھی بڑاکامیاب تصور کیا جاتا ہے جس کی حکم یا سفارش کے بیسیوں لوگ منتظررہتے ہوں ۔جبکہ اسلام فلاح کے ان ظاہری تصورات کو قبول نہیں کرتا اورنہ ہی اختیارات کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے مالداروں کا حساب روزِ قیامت اس قدر طویل ہوگا کہ وہ دنیا میں اس مال کے نہ ہونے کی آروزو کریں گے۔ اسلام میں مال و دولت کو فتنہ قرار دیا گیا ہے او راللہ کی یاد سے غفلت[2] کا سبب بتایا گیا
Flag Counter