کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں ۔ اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تیرے ربّ کی مہمان نوازی ہے۔ اور تیرے ربّ کے پاس نیکوکاروں کے لئے بہت بہتر (انعام) ہے۔“ اس پہلے نکتے کا حاصل یہ ہے کہ ایک مسلمان اور غیرمسلم کا زندگی کے بارے میں عقیدے اور نظریے کا اس کے طرزِ عمل اور رویے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی جن رجحانات اور تعیشات کی مظہر ہے، چونکہ ایک مسلمان کا یہ کلی مقصد ہو نہیں ہوسکتے، یہی و جہ ہے کہ مسلمان سائنس دان انہی مقاصد کو اپنی تحقیق کا واحد موضوع نہیں بنا سکتے، اور اس سلسلے میں اسلام کا مجموعی مزاج ان کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ٭ اس کے بالمقابل ایک مسلم سائنس دان کی دلچسپی و توجہ کا زیادہ مظہر اس کائنات کے ایسے اکتشافات ہوسکتے ہیں جن میں تفکر و تدبر کرنے کا ہمیں قرآن حکم دیتا ہے او رقرآن ہم سے بار بار مظاہر فطرت میں غور کرنے، ان کا بغور مشاہدہ کرنے کی ترغیب [1]دیتا ہے۔ اس کا بھی بنیادی مقصد اپنے ربّ کی کامل معرفت او راس کی ذات پر ایمان و ایقان میں اضافہ کا حصول ہے۔ایک مسلم سائنس دان جب انفس و آفاق میں اللہ کے متحیر معجزات کا مشاہدہ کرتا ہے تو اپنے ربّ پر اس کے ایمان میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن مسلمان سائنس دان کی زیادہ تر دلچسپی ان رازوں کی دریافت سے رہتی ہے، ان رازوں کی بنا پر اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل سے وہ اپنے عقائد کی رو سے بعض تحفظات رکھتا ہے اور اس کا رویہ ان سے گریز کا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جن و اِنس کو یہ چیلنج کیا کہ ﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِنْسِ إنِ اسْتَطَعْتُمْ أنْ تَنْفُذُوْا مِنْ أَقْطَارِ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ إلاَّ بِسُلْطٰنٍ ﴾ (الرحمن:33) ” اے جن وانس کی جماعت! اگر زمین وآسمان کی حدوں سے تمہیں باہر نکلنے کی طاقت ہے |