تک زمین پر انسانوں کی طرح چلنا نہیں آیا۔“ 38 امن و سکون، ہمدردی و خیر خواہی کے زمانے سے اٹہ جانے پر وہ یوں ماتم کرتا ہے : ”جہاں تک ہمارے زمانے کی سوسائٹی کا تعلق ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ تمدن نام ہے سرعت کا۔ سرعت موجودہ زمانے کے نوجوان کا دیوتا ہے، اس کے آستانے پر وہ سکون، راحت، امن اور دوسروں کے ساتھ مہربانی کو بڑی بے دردی کے ساتھ پھینٹ چڑھا دیتا ہے۔“39 وہ مزید لکھتا ہے : ”اس میں شک نہیں کہ زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں ، قومیں ایک دوسرے کے قریب ہوگئی ہیں ، اور ان کے پاؤں ایک دوسرے کی دہلیز پر ہیں ، مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوموں کے آپس کے تعلقات پہلے سے زیادہ ناخوش گوار ہیں ۔ وہ وسائل جن سے ہم اپنے ہمسایہ قوموں سے براہ راست واقف ہوتے ہیں ، انہوں نے اُلٹا دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے، ہم نے آواز پہنچانے کا آلہ ایجاد کیا، اور اس کے ذریعے اپنی ہمسایہ قوموں سے باتیں کیں ، لیکن اس کا انجام یہ ہے کہ آج ہر قوم ہوا کی پوری طاقت کے ساتھ اپنی ہمسایہ قوم کو چھیڑنے اور دق کرنے کا کام لے رہی ہیں ، وہ اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ دوسری قوم کو اپنے سیاسی نظام کی برتری کا قائل و معتقد بنا دے۔“40 خاتمہ کلام اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ مغرب اپنی موجودہ سائنسی ترقی اور مادّی فتوحات کے باوجود اس وقت بلکہ ماضی سے ہی ایک مختلف النوع اور کثیر الجہت نفسیاتی اُلجھن، تضاد اور کشمکش کا شکار ہے، اس فلسفی کی مانند جس کے ہاتھ سے ڈور کا سر اجاتا رہا ہوا اور وہ اُلجھے ہوئے دھاگے کو سلجھانے کی فکر میں غلطاں ہو، مغرب کا المیہ بھی یہی ہے کہ ہدایت کی ربانی وآسمانی رسی حبل اللہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی ہے۔ نتیجتاً طرح طرح کے عوارض اسے لاحق ہو رہے ہیں ۔ فکری، علمی و عملی کجیوں ، کجرویوں اور اُلجھنوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے اسے سہارے کی تلاش ہے، یہ سہارا قرآنِ کریم کی صورت میں اس کے سامنے موجود ہے، مگر اس کی توجہ مادّیت کے طوفان میں بھٹک رہی ہے، اب اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر |