Maktaba Wahhabi

86 - 142
جسے اس کے حقیقی باپ کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کردیا گیا ہو۔“37 سائنسی ترقی خود مغرب کی نظر میں اس مضمون کے اختتام سے قبل ہم لندن یونیورسٹی میں فلسفے کے اُستاد پروفیسر جوڈ (Joad) کی رائے جو قدرے طویل اقتباسات کی صورت میں ہے، پیش کرنا چاہیں گے۔ انہوں نے بے لاگ طریقے سے مغرب کی سائنسی ترقی اور نفسیاتی تضاد کا جائزہ لیا ہے، وہ کہتے ہیں : ”ہماری حیرت انگریز صنعتی فتوحات اور ہمارے شرمناک اخلاقی بچپن کے درمیان جو تفاوت ہے، اس سے ہمارا سابقہ ہر موڑ پر پڑتا ہے، ایک طرف ہماری صنعتی ترقی کا یہ حال ہے کہ ہم بیٹھے بیٹھے سمندر پار سے، اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم کے لوگوں سے بے تکلف باتیں کرسکتے ہیں ، سمندر کے اوپر اور زمین کے نیچے دوڑتے پھرتے ہیں ، ریڈیو کے ذریعے سیلون میں گھر بیٹھے، لندن کے بڑے گھنٹے (Big Ben) کی آواز سن سکتے ہیں ، بچے ٹیلیفون کے ذریعے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں ، برقی تصویریں آنے لگی ہیں ، بغیر آواز کے ٹائپ رائٹر چل گئے ہیں ، بغیر کسی درد و تکلیف کے دانت بھرے جاسکتے ہیں ، فصلیں بجلی سے پکائی جاتی ہیں ، ربڑ کی سٹرکیں بنتی ہیں ، ایکسرے کے ذریعے ہم اپنے جسم کے اندرونی حصے کو جھانک کر دیکھ سکتے ہیں ، تصویر یں بولتی اور گاتی ہیں ، لاسلکی (وائرلیس) کے ذریعے مجرموں اور قاتلوں کا پتہ چلا یا جاتا ہے، برقی موجوں سے بالوں میں پیچ و خم پیدا کیا جاتا ہے، آبدوز کشتیاں ، قطب ِ شمالی تک اور ہوائی جہاز قطب ِ جنوبی تک اُڑ کر جاتے ہیں ، لیکن اس سب کے باوجود ہم سے اتنا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے بڑے بڑے شہروں میں کوئی ایسا میدان بنا دیں جس میں غریب بچے آرام و حفاظت کے ساتھ کھیل سکیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سالانہ دو ہزار بچوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور نوے ہزار زخمی ہو جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک ہندوستانی فلسفی سے میں اپنے تمدن کے عجائبات کی تعریف کر رہا تھا۔ اسی زمانے میں ایک گاڑی چلانے والے نے Pendinsands میں تین یا چار سو میل کی مسافت ایک گھنٹے میں طے کرکے ریکارڈ قائم کیا تھا، اور ایک ہوا باز نے ماسکو یا نیو یارک کی مسافت بیس یا پچاس گھنٹے میں طے کی تھی۔ میں جب سب کچھ کہہ چکا تو ہندوستانی فلسفی نے کہا: ہاں یہ صحیح ہے کہ تم ہوا میں چڑیوں کی طرح اُڑتے اور پانی میں مچھلیوں کی طرح تیرتے ہو، مگر تمہیں ابھی
Flag Counter