اسلام کی کتب سے سرقہ شدہ ہے، چند مثالیں مزید پیش کی جاتی ہیں : سائنس دانوں کے ہاں یہ بات معروف تھی کہ بصریات کے میدان میں حجرۂ تاریک (Camera Odscurd) کو دریافت کرنے اور چاند کے مشاہدے کے سلسلے میں اس کو استعمال کرنے والا لیوی (Lewi)ہے، لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ کارنامہ دراصل ابن الہثیم کا ہے، جو لیوی کی جانب غلط طریقے سے منسوب کردیا گیا۔ 33 نیز ’مثلثاتِ کرویہ‘کی دریافت بھی لیوی کی طرف منسوب کی گئی ہے، حالانکہ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کا سہرا چوتھی صدی ہجری کے الخجندی، ابو الوفا الوز جانی اور ابو نصر بن عراقی کے سر ہے۔34 مغرب کی یہ سرقہ گیری خود مغرب کے منصف مزاج قلم کاروں سے بھی پوشیدہ نہیں رہی، اور انہوں نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے، امریکی مصنف ڈریپر لکھتا ہے: ”مجھے اس بات پر بے حد افسوس ہے کہ یورپ کے مصنّفین نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ دیدہ و دانستہ مسلمانوں کے اس احسان کو چھپانے کی کوشش کی ہے جو یورپ والوں کی گردن پر ہے۔ عربی علوم کی ان نشانیوں سے جو اب تک باقی رہ گئی ہیں ، ہمیں مسلمانوں کے عروجِ ذہنی کا پتہ چلتا ہے، حالانکہ ان کی بہت سی کتابیں فنا ہوچکی ہیں ، اور بہت سی قصداً فنا کردی گئی ہیں ۔“35 اور بریفالٹ لکھتا ہے: ”سائنس سے تحقیق کی نئی روح، تفتیش کے نئے طریقے، پیمائش اور مشاہدے کے لئے نئے اُسلوب مراد ہیں جن سے یونانی بے خبر تھے، یورپ میں اس روح اور ان اسالیب کو رواج دینے کا سہرا عربوں کے سر ہے۔“ 36 مغرب کے ذ ہنی اور علمی تفوق کی اس نفسیات کی حقیقت پر سب سے عمدہ اور برمحل تبصرہ خود ڈاکٹر فواد سیزگین کا ہے، جنہوں نے اس سلسلے میں وقیع تحقیق اہل علم کے سامنے پیش کی ہے، وہ کہتے ہیں : ”جوں جوں انسان یورپ کے اصل ماخذ کی گھری تحقیق کرتا ہے، اس کے ہاں یہ تصور تقویت پکڑتا چلا جاتا ہے کہ وہاں کی نام نہاد تحریک ِاحیا اس بچے سے از حد مشابہت رکھتی ہے، |