ویڈ یمان مسلمانوں کے اندازِ تحقیق کے بارے میں اپنی رائے یوں ظاہر کرتا ہے: ”یونانیوں کے ہاں نتائج تحقیق ہمارے سامنے اپنی آخری کلاسیکی شکل میں آتے ہیں ، چنانچہ بعض استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہم ان کی اُٹھان کا سراغ لگا سکیں ، لیکن عربوں (مسلمانوں ) کے ہاں صورتِ حال یکسر مختلف ہے، عرب جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں ، اس کے قدم بہ قدم ارتقا کی وضاحت کرتے ہیں ، کچھ اس طرح جیسے آج ہمارے بعض محققین کرتے ہیں ، ان کی اس وضاحت کے پیش نظر ہم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی طبیعتوں میں اپنے کام کی قدم بہ قدم پیش رفت پر اطمینان و سرور کی ایک کیفیت پائی جاتی ہے۔“29 اس کے برعکس مغرب کا طریقہٴ تحقیق یہ ہے کہ لاطینیوں نے مسلمان محققین سے جو کچھ اخذ کیا اس کا وہ اپنی نفسیاتی اُلجھنوں کے سبب اعتراف نہ کرسکے، اور اسے انہوں نے اپنی جانب منسوب کرلیا، بلکہ مسلمانوں کے علوم سے لاطینیوں کے عمل استفادہ نے سرقے کی صورت اختیار کرلی، انہوں نے بہت سی کتب کو مکمل طور پر ترجمہ کرکے اپنی جانب منسوب کرلیا، اور انہیں اپنی طبع زاد تصنیف تالیف قرار دیا، یا یہ کہا کہ یہ یونانی مشاہیر مثلاً ارسطو، جالنیوس، روفوس وغیرہ کی کتب ہیں ، اس کی بہت سی مثالیں سامنے آچکی ہیں ۔30 مثال کے طور پر راے منڈس لولس (Raymundus Lullus) کی کتنی ہی کتب کیمیا کے حوالے سے مغرب میں متداول رہیں ، مگر بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ عربی کتب کا سرقہ تھیں ، اسی طرح ابن سینا کی ’کتاب الشفا‘ کا حصہ معدنیات کئی صدیوں تک مغرب کے سائنس دانوں کے ہاں ارسطو کی تحریر سمجھا جاتا رہا۔31 ان کے ان غیر اخلاقی اقدامات کا سبب بھی ان کی نفسیاتی کشمکش تھی جو سائنس ایسے خالص تحقیقی معاملات میں بھی ان کو راہ راست پر نہ چلا سکی، مسلمانوں نے جن سے بھی اخذ واکتساب کیا، وہ ان کے بارے میں کسی قسم کے منفی خیالات کا شکار نہیں تھے۔ اس کے برعکس لاطینی جب مسلمانوں سے اخذ ِفیض کر رہے تھے، تو وہ اسی لمحے مسلمانوں کو اپنا حریف اور مدمقابل بھی قرار دے رہے تھے، اس بنا پر وہ غیروں اور مخالفوں سے اخذ و اکتساب کرنے میں تردّد و تامل کا شکار تھے، ان کی اس نفسیاتی اُلجھن نے اس صورت حال کا حل سرقہ نویسی کی |