Maktaba Wahhabi

81 - 142
ہوگا (اگر بنیاد گھری و مستحکم نہ ہو)۔“ 23 لادینیت اور سائنٹزم کی چھاؤں میں پروان چڑھنے والے اس نظامِ تعلیم کے ثمرات پر گفتگو کرتے ہوئے مشہور مغربی اہل قلم والٹرلپ مین (Walter Lipman) نے کہا تھا: ”اسکول اور کالج دنیا میں ایسے افراد بھیج رہے ہیں ، جو اس معاشرے کے ان تخلیقی اُصولوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، جس میں انہوں نے رہنا ہے۔ اپنی ثقافتی روایات سے نابلد،نئے تعلیم یافتہ افراد اپنے ذہن و جذبات میں مغربی تہذیب کے تصورات، اُصول اور بنیادوں کا، نیز اس کی منطق و استدلال کا کوئی احساس اور شعور نہیں رکھتے، اگر یہی نہج رہی تو موجودہ تعلیم آخر کار مغربی تہذیب کو تبادہ کردے گی۔“ 24 سر والٹیر موبرلے (Sir Walter Moberly) برطانیہ کے تعلیمی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں : ”ہم جس الجھن میں گرفتار ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری جامعات سے فارغ ہونے والے زیا دہ تر طلبا کو کوئی ایسا موقع پیش نہیں آتا جب وہ حقیقی اہمیت کے عظیم مسائل پر اپنا ذہن استعمال کرسکیں ۔ تعلیمی غیر جانبداری کے زیر اثر وہ موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول کے آگے سپر ڈال دینے اور سوچ بچار کی زحمت نہ اُٹھانے کے عادی ہو جاتے ہیں ، اسی طرح وہ لادینیت کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں …ساری تعلیم حاصل کرلینے کے بعد بھی وہ بنیادی طور پر غیر تعلیم یافتہ ہی رہتے ہیں ۔“25 خود برٹرینڈ رسل اس امر کا خطرہ صاف محسوس کرتا ہے کہ موجودہ نہج پر چلتے ہوئے سائنسی تہذیب ترقی نہیں پاسکتی، بالفاظِ دیگر اسے موجودہ نفسیاتی پس ماندگی سے نکلنا ہوگا، ورنہ سائنسی تہذیب کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، اس کے الفاظ ملاحظہ کیجئے: ”اگر سائنسی تہذیب کو برتر تہذیب بننا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی اضافہ ہو۔ حکمت سے میری مراد زندگی کی غایات کا صحیح تصور ہے، مگر یہ وہ چیز ہے جس کو سائنس مہیا نہیں کرسکتی۔“ 26 یہ کس قدر واضح اور کھلا اعتراف ہے مذہب کی بالادستی کا، اس کی موجودہ سائنسی دور میں فعالیت اور ضرورت و اہمیت کا، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالت میں
Flag Counter