Maktaba Wahhabi

77 - 142
بیٹے کے دل میں اپنے باپ کی طرف سے عزت و احترام کا جذبہ روبہ زوال ہے۔ ان دونوں کے باہمی تعلقات تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہوتے جاتے ہیں ، اور عملاً ایک ایسی مشینی سوسائٹی کے ذریعے ان تعلقات کا خون ہو رہا ہے، جس میں افراد کے باہمی حقوق کے منسوخ کردینے کا رجحان پایا جاتا ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی رشتہ داری کے پیدا کئے ہوئے حقوق بھی ختم ہوتے جاتے ہیں ۔“12 اس موضوع پر گفتگو کا اختتام ایک اور مسلم مفکر کے خیالات پر کرتے ہیں ، جن کی لمحہ بہ لمحہ ’تبدیل ہوتی ہوئی مغربی نفسیات اور مغرب کے افکار و اقدار‘ پر گہری نظر ہے۔ پروفیسر معزز علی بیگ اس تمام صورت حال پر یوں تبصرہ کرتے ہیں : ”سائنس اور منطق کا یہ جامہ دراصل بھیڑ کی وہ کھال ہے، جس میں وہ بھیڑیا خود کو چھپائے ہوئے ہے جو اس انسان دشمن اور خدا بیزار تہذیب کا پروردہ ہے جس کی بربریت نے اسیریا اور روم سے اپنا لوہا منوالیا ہے۔ یہ انسان دشمن بازاری تہذیب اس ’عدوِ مبین‘کی وہ سازش ہے جو انسانیت کو نذرِ آتش کرنے جا رہی ہے، چنانچہ اس نے اسی سازش کے تحت نفسیاتی اور عمرانی علوم کو اپنا آلہ کار بنا لیا۔ لیکن قرنِ ماضی کے دوسرے نصف حصے میں ایک فکری انقلاب نے ہمیں یہ بتادیا کہ یہ سائنس ایک جعلی اور مصنوعی سائنس یا سائینٹزم (Scientism) ہے، اور یہ منطق یا اس کی منطق حقیقت کی نفی ہے، یہ ایک دوئی (Dualism) سے ٹوٹے ہوئے تصورِ حقیقت (Outology) ، ایک تضاد سے بکھرے ہوئے نظریہٴ علم (Epistemology)، اور بازاریت کی متعفن چادر میں لپٹے ہوئے نظامِ اقدار کی پیدا وار ہے۔ اس فکری انقلاب نے جو راستہ کھولا ہے، اس نے نفسیات کو انسانیت کی تعمیر نو کے لئے تیار کردیا ہے، جو موجودہ صدی میں ہمارے سامنے کچھ نتائج لائے گا۔“13 اہم بات یہ ہے کہ فاضل مفکر کے اس کلام سے اُمید کی ایک کرن پھوٹتی دکھاتی دیتی ہے، جو حالات کی سنگینی کے پیش نظر بڑی خوش آئنداور امید افزا ہے!! سائنسی ترقی، مگر اخلاقی تنزل ایک جانب جہاں بجا طور پر سائنسی ترقی کا غلغلہ اور اس کی دھوم بپا ہے، دوسری جانب اس کے بالکل متضاد صورت سامنے آتی ہے، اور در حقیقت وہ اس قدر تکلیف دہ ہے کہ خود
Flag Counter