آزاد اور بے نیاز ہوتی ہے۔ وہ صرف حقوق کی خواہاں ہے، فرائض سے اسے کوئی سروکار نہیں ، اسے پابندیوں اور حدود و قیود سے سخت تنفر ہے ،کیوں کہ یہ بھی فرائض کی یاد دلاتے ہیں ۔ یہ نفسیات جو بد یہی طور پر جدید اصطلاح میں سائنٹزم (Scientism) کی پیدا وار ہے، ہمہ جہت اخلاقی انقلاب کا سبب بنی، لیکن مکمل طور پر ایک سلبی و منفی انقلاب جس سے انسانیت کو حاصل کچھ نہیں ہوا جبکہ کھونا بہت کچھ پڑا۔ مستقبل کا موٴرخ جب حتمی نتائج اخذ کرے گا تو اسے نفع کے خانے کو مکمل طور پر خالی رکھنا پڑے گا۔ مغرب کی اس نفسیاتی لغزش کے بارے میں ایک مغربی نو مسلم جناب محمد اسد کا تبصرہ پر مغز مدلل اور گھرا ہے۔ قدرے طویل اقتباس ملاحظہ فرماےئے، وہ کہتے ہیں : ”(یورپ میں ) انسانوں کی ایک ایسی قطع پیدا ہوگئی ہے، جس کی اخلاقیت عملی افادیت کے سوال کے اندر محصور ہے۔ اور جس کے نزدیک خیر و شر کا بلند ترین معیار مادّی کامیابی ہے، مغرب کی معاشرتی زندگی موجودہ زمانے میں جس گہری تبدیلی سے گزر رہی ہے، اس میں نئی اخلاقی افادیت روز بروز زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتی جارہی ہے، وہ تمام محاسن سوسائٹی کے مادّی مفاد پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ، مثلاً صنعتی قابلیت، وطن پرستی، قوم پرستانہ احساسِ جماعت، ان کی عظمت بڑھتی جا رہی ہے، اور ان کی قیمت میں بعض اوقات غیر معقول طریقے پر مبالغہ کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابل میں وہ محاسن جن کی ابھی تک محض اخلاقی حیثیت سے قیمت تھی، مثلاً محبت ِپدری یا ازدواجی وفاداری وہ بڑی سرعت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں ، اس لئے کہ وہ سوسائٹی کو کوئی نمایاں مادّی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ اس زمانے کی جگہ جس میں خاندانی روابط کا استحکام ہی خاندان اور قبیلے کی خیر و فلاح کے لئے ضروری تصور کیا جاتا تھا، مغرب ِجدید میں اس زمانے نے لے لی ہے جو وسیع ترعنوانات کے تحت اجتماعی تنظیم کرتا ہے۔ ایک ایسی سوسائٹی میں جو بنیادی طور پر صنعتی ہے اور جس کی تنظیم بڑی تیز رفتاری کے ساتھ خالص میکانکی خطوط پر کی جا رہی ہے، ایک فرد کا برتاؤ اپنے والد کے ساتھ کوئی معاشرتی اہمیت نہیں رکھتا، جب تک کہ یہ افراد اس عام معیارِ شرافت کے حدود کے اندر ایک دوسرے سے برتاؤ کرتے ہیں جو سوسائٹی نے افراد کے باہمی برتاؤ کے لئے مقرر کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپین باپ کا اقتدار اپنے بیٹے پر برابر کم ہوتا جارہا ہے، اور |