Maktaba Wahhabi

75 - 142
وجود کو مفلوج کر ڈالا، اس کا ثمرہ یوں سامنے آیا کہ وہ انسان جو آفاقی سوچ، بلند اخلاقی قدروں ، ربانی قوتوں اور ارفع انسانی صفات کا حامل تھا، محض ایک مشینی پرزہ بن کر رہ گیا۔ اس کی تمام امتیازی صفات رفتہ رفتہ اس سے رخصت ہوگئیں ، اور ان کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والا خلانری حیوانی صفات اور خالص غیر انسانی اخلاقیات کو پر کرنا پڑا، جب انسان کا اپنے مرکز و محور سے ناتا ٹوٹا تو اس کی نفسیات نے تمام حدود پامال کر ڈالیں ، اور وہ کچھ ہوگیاجس کا دوصدی قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تمام تر جاہلانہ رویے ’علم‘ کے نام پر اور سارے غیر اصلاحی اقدام ترقی پسندی کے عنوان سے روا رکھے گئے، یہ وہی بات تھی جسے شاعر نے اپنے انداز میں یوں بیان کیا۔ خرد کا نام جنون رکھ دیا، جنوں کا نام خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے! اس ساری تگ ودو کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کا وقار خاک میں مل گیا، اور اس کا امتیاز تباہ ہو کر رہ گیا، اور انسانی حقوق کاغذوں میں تو بڑے نمایاں ہوگئے، مگر درحقیقت ذبح کرکے رکھ دےئے گئے، اور بقول شخصے : ”مادّہ پرستانہ فکر نے سائنس اور منطق کا جامہ پہن کر نفسیات کو آمریت، سرمایہ دارانہ نظام اور آمرانہ جمہوریت کے لئے ایک آلہ کار بنا دیا۔“11 مغرب کا فلسفہ اخلاق جن بنیادوں پر استوار ہے، اس کو ان دو عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے :(1) لذتیت(2)افادیت پھر افادیت کے تحت وہ تمام اقسامِ مادّیت آجاتی ہیں جن میں انسان کو اس جہاں کے اعتبار سے کوئی فائدہ محسوس ہوتا ہے، درحقیقت لذتیت بھی افادیت ہی کی ایک قسم قرار دی جاسکتی ہے۔ان ہی نفسیاتی لغزشوں کا ثمرہ ہے کہ آج یورپ کے ہاں فطرت سے مراد بھی فطرتِ حیوانی ہے، فطرتِ انسانی نہیں ۔ وہ جن چیزوں کو فطرت قرار دے رہے ہیں ، ان سے فطرتِ سلیمہ اِبا کرتی ہے اور مغرب کی مزعومہ ’فطرت‘ ہر قسم کے لطیف احساسات، منصفانہ خیالات، پاکیزہ جذبات، اخلاقی ضمیر، قلب ِ سلیم، ذوقِ لطیف اور عقل سلیم؛ ان سب سے
Flag Counter