الفطرت طاقتیں دراصل مذہب کا بوجہ اٹھانے کے لئے انسانی ذہن نے اختراع کی تھیں ، پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس کی جگہ لی، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ اُبھرا اور اس کے بعد ایک خدا کا تصور آیا، اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حد تک پہنچ کر ختم ہوچکا ہے۔ کسی وقت یہ خدا ہماری تہذیب کے ضروری مفروضے اور مفید تخیلات تھے، مگر اب جدید ترقی یافتہ عہد میں وہ اپنی ضرورت اور افادیت کھو چکے ہیں ۔“6 حالانکہ جس مرحلے کو یہ ترقی یافتہ کہہ رہا ہے، شاید وہ خود نہیں جانتا کہ اس کے ارتقائی سفر کا یہ بھی محض ایک مرحلہ ہی ہے، اور بالآخر اُس سمیت ساری کائنات کو ایک آخری نکتے پر آنا ہے، جو فطرت کا تقاضا اور انسان کے اندر کا مطالبہ ہے، اور جہاں پہنچ کر انسانیت کے مذہبی تصورات کے بارے میں اس کے تراشے ہوئے یہ دیو مالائی تصورات خود بخود پاش پاش ہو جائیں گے۔ عضویات کا ایک پروفیسر اس معاملے میں ھکسلے سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہتا ہے، حالانکہ یہ کہنے کے لئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ Science Has Shown religion to be history's Cruelest and wickedest Hoax 7 ”سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا سب سے زیادہ در ناک اور سب سے بدترین ڈھونگ تھا۔“ اس نکتہ نظر کے مخالف اسلام کا نقطہ نظر ہے جو یہ کہتا ہے کہ خالق کائنات نے جب انسان کو وجود بخشا اور اسے اس کائنات میں بھیجا تو جہاں اس کی مادّی ضرورتوں کا خیال رکھا، وہیں اس کی روحانی ضرورتوں اور ہدایت کے لئے بھی پورا نظام وضع کیا۔ یہ نظام رسالت و نبوت کہلاتا ہے، اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا، اور اس کا اختتام ختمی مرتبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا۔ اس دوران جب بھی خدا کی مخلوق میں گمراہی پھیلی اور وہ راہ فطرت چھوڑ کر باطل راستوں پر گامزن ہوئی تو ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے پیغمبر مبعوث کئے، ان تمام انبیا کی تعلیمات یکساں تھیں ، اور جزوی و فروعی فرق کو چھوڑ کر جو وقت اور حالات اور اقوام کے اعتبار سے تھا اور معمولی تھا، ان کی تعلیمات کی اساسیات میں کوئی فرق نہ تھا۔ بعد |