Maktaba Wahhabi

72 - 142
کو زیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سائنس اور مذہب کے تصادم کی اصل بنیاد اور اصل سبب صرف اسی قدر تھا، اگر سائنس سے وابستہ مفکرین اس حقیقت کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتے تو ان کا تصادم دیگر مذاہب خصوصاً اسلام سے ہو ہی نہیں سکتا تھا، مگر ان کو پڑنے والی مار اس قدر شدید تھی کہ وہ مذہب سے اس قدر متنفر ہوئے کہ انہوں نے درست سمت میں سوچنا ہی چھوڑ دیا، بلکہ یوں کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ روشن خیالی کو بنیاد بنا کر کلیسا سے ٹکر لینے والے سائنسی مفکرین بعد میں اس انتہا پسندی تک چلے گئے کہ روشن خیالی کی ساری حدود انہوں نے اپنے لئے ممنوع قرار دے دیں اور اپنے حصار میں محدود ہوگئے، گوکہ یہ ان حالات کا ردِ عمل تھا، جو ان کے ساتھ ماضی میں پیش آچکے تھے، مگر انہیں اپنے اس انتہا پسندانہ ردِ عمل میں ، جس میں انہوں نے سرے سے مذہب ہی کو خود اپنے الفاظ میں دیس نکالا دے دیا، اس لئے حق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات واضح صورت میں موجود تھیں ، ضرورت صرف اس قدر تھی کہ انہیں پڑھتے، ان میں غور فکر کرتے، پھر کوئی نتیجہ اخذ کرتے، جس پر ان کے ردِ عمل کا انحصار ہوتا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا دن اور مشرق کے افق پر طلوع ہونے والا سورج ہر روز اسلام کی حقانیت کی ایک نئی دلیل، ایک نئی شہادت لے کر طلوع ہو رہا ہے، اور یوں قرآن کی یہ پیش گوئی پوری ہو رہی ہے : ﴿ سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىْ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّه الْحَقُّ ﴾ 5 ”عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور خود ان کے اندر، حتیٰ کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ حق ہے۔“ اس لئے سائنس کی ایجادات، اور جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہیں ، اور غور کیا جائے تو اس کے اثبات و تبلیغ کے لئے ممد و معاون ہیں ۔مذہب کے بارے میں مغرب کا نظریہ اب اس حد تک باغیانہ ہو چکا ہے کہ جولین ھکسلے یہ کہتے ہوئے بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ”خدا کا تصور اپنی افادیت کے آخری مقام پر پہنچ چکا ہے، وہ مزید ترقی نہیں کرسکتا۔ مافوق
Flag Counter