یقینا اسلام اصلاً امن، صلح اور امان لے کر آیا ہے، لیکن اگر عصر حاضر کے جابر حکمران انصاف کی جگہ ظلم کا ساتھ دیں ، نہتے لوگوں پر بم برسائیں اور ان کی بستیاں جلا کر خاک کردیں ، ایک جگہ کے باشندوں سے اس کا وطن چھین کر دوسرے لوگوں کو بخش دیں ۔ شریعت کے نفاذ میں تعطل پیدا کرنے کے لئے طاقت اور دباوٴ سے کام لیں ، بے گناہ اشخاص کو بغیر کسی عدالتی فیصلہ/محاکمہ کے اذیت گاہوں میں قید کردیں تو اسلام کے نام لیواوٴں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے تصورِ جہاد و قتال کوبھی نظریاتی اور عملی، دونوں طرح لوگوں پر واضح کردیں ۔ اس ضمن میں سیرتِ نبویہ سے ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں : (1)جہاد کے لئے ہمیشہ اپنے آپ کو تیار رکھا جائے جس کا تذکرہ سورۃ الانفال کے ضمن میں آچکا ہے۔ (2)جہاد کے لئے اپنے امیرکا ساتھ دیا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بروایت ِابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ارشاد فرمایا: (الجهاد واجب عليكم مع كل أمير براً كان أو فاجراً) 26 ”جہاد تمہارے اوپر واجب ہے، ہر امیر کے ساتھ، چاہے وہ نیک ہو یا گناہگار“ اور اس سے یہ اُصولی بات بھی طے ہوگئی کہ ایسے امیر کا انتخاب کیا جائے جو جہاد کا قائل ہو، اور اگر وہ سرے سے جہاد کا قائل ہی نہ ہو تو وہ جہاد کی طرف کیسے بلائے گا اور کیوں بلائے گا؟ (3)دشمن کے مقابلہ کے وقت دعا موٴمن کا ہتھیار ہے، لیکن یہ دعا اس وقت پرتاثیر ہوگی جب مجاہدین واقعی جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے میدان میں اپنے تین سو313 تیرہ جاں نثاروں کو لے آنے کے بعد ساری رات اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعائیں کرتے رہے۔ آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ (اللهم أنجزلى ما وعدتنى ، اللهم آتنى ما وعدتنى، اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد فى الأرض) 27 ”اے اللہ! جو وعدہ کیا ہے پورا کر، اے اللہ! مجھے وہ دے جس کا تونے وعدہ کیا ہے، اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔“ البتہ اگر کہیں جہاد جاری ہو تواس میں مال کے ساتھ بدرجہ اولیٰ اور دعا کے ساتھ بدرجہ اتم شامل رہنا چاہئے۔ نوازل کے وقت قنوتِ نازلہ کی پابندی اسی ذیل میں آتی ہے۔ |