ادا کرتا ہے۔ اس لئے مالی ایثار کا مطالبہ سرفہرست رہتاہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سرمایہ فراہم کرنے کی ہی اپیل کی تھی۔22 (2)مال کی قربانی ، اپنی جان قربان کردینے کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور قاعدہ ہے کہ سب سے اونچی گھاٹی تک پہنچنے کیلئے نچلی گھاٹیوں کوعبور کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص مال کی قربانی کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا، وہ اس سے برتر امتحان میں کیسے کامیاب ہوگا۔ (3)جان کی قربانی کا مرحلہ صرف جہاد (یعنی قتال) کے موقع پر ہی آتا ہے جو ہر زمانہ میں میسر نہیں ۔ اس کے برعکس مالی قربانی کا موقع ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے جہاد کا ایک دائمی راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بہت سی حسنات کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا: (وما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبى بكر) 23 ”مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے۔“ ٭ اسلام کے دفاع کے لئے زبان کا جہاد نص رسول سے ثابت ہے۔ بروایت ِانس بن مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم) 24 ”مشرکین سے جہاد کرو اپنے مال سے، اپنی جان سے اور اپنی زبانوں سے۔“ زبانی جہاد میں بلا شبہ قلم بھی شامل ہے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مسجد ِنبوی میں کھڑے ہوکرمشرکین کی ہجو کرنا اسی جہاد کا حصہ تھا جس کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی۔ ملعون سلمان رشدی اور اس سے قبل رنگیلا رسول جیسی ہفوات کے ردّ میں علماء اسلام کے خطابات ، مقالات اور کتب یقینا اسی جہا دکی کڑیاں ہیں ۔ قرآن کی وہ آیت جس میں نفس کا تذکرہ پہلے اور مال کا بعد میں ، سورۂ توبہ کی یہ آیت ہے: ﴿إنَّ اللهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ، وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِىْ التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفٰى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِىْ بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ ”بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں |