کیا مسلمانوں کے لئے یہ مقامِ عبرت نہیں کہ 1897ء میں بازل (سوئٹرز لینڈ) کے مقام پر پہلی صہیونی کانفرنس نے اپنے خفیہ اجلاسوں میں یہودیوں کی عزت و سربلندی کے لئے جو نقشہ پیش کیا تھا، اس پر خاموشی سے عمل ہوتا رہا یہاں تک کہ پچاس سالوں میں کاغذ کا یہ نقشہ زمین کا نقش بن گیا اور پھر اس کا پھیلاوٴ ایک حقیقت بنتا جارہا ہے۔ کیا مسلم ممالک کے زیرک اور ’عالی النسب حکمران‘ مسلمانوں کی عزت و افتخار کے لئے کوئی عملی نقشہ ترتیب دینے سے قاصر ہیں ؟ أليس منهم رجل رشيد !! (9)جہاد بمعنی عمومی جدوجہد قرآن مجید میں جہاد کا لفظ اُنتیس 29 مرتبہ آیا ہے اور مجاہدین کا چار مرتبہ۔ ’جہاد‘ مقابلے کی جدوجہد کا نام ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ سے ہر وہ کوشش مراد ہے جو اللھ کے دین کو پھیلانے کے لئے، اللہ کے کلمہ توحیدکوسربلند کرنے کے لئے، اللہ کے احکامات کو نافذ کرنے کے لئے، اورفتنوں سے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے کی جائے۔ ٭ اس لفظ کا پہلا اطلاق قرآن کریم کے ذریعے امربالمعروف اور نہی عن المنکر پرہوتا ہے خواہ اس میں قتال موجود نہ ہو۔ سورۃ الفرقان مکی سورت ہے اور اس میں یہ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے : ﴿فَلاَ تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِه جِهَادًا كَبِيْرًا﴾ (الفرقان:52) ”پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعہ ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں ۔“ چونکہ مکہ میں جہاد بمعنی قتال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکی جہادکتاب اللہ کی تبلیغ و تنفیذ سے عبارت تھا جسے یہاں جہادِ کبیر کہا گیا ہے۔ ٭ بنفس نفیس جہاد (بمعنی قتال) میں شریک ہونے کا جہاں بھی ذکر ہے، وہاں سوائے ایک جگہ کے، مالی جہاد کا ذکر جہاد بالنفس پر مقدم ہے۔متعلقہ آیات ملاحظہ ہوں : ﴿لاَ يَسْتَوِىْ الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُوٴمِنِيْنَ غَيْرَ أُوْلِىْ الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلَ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، فَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِيْنَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِيْنَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰى وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِيْنَ عَلَى الْقَاعِدِيْنَ أَجْرًا عَظِيْمًا﴾ ”اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے موٴمن اور بغیر عذر کے بیٹھ |