Maktaba Wahhabi

60 - 142
لیکن جس طرح بنی اسرائیل کا سفینہ سیناء کی چالیس سالہ صحرا نوردی کے بعد جہاد و قتال کے مرحلوں سے گذرتا ہوا جب برامان تک پہنچا تو کچھ عرصہ کے بعد ہی بگاڑ کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔ ایسے ہی مسلم ممالک کو یہ آزادی راس نہ آئی اور طالع آزما سیاست کے نتیجہ میں کشتیاں پھر گرداب میں پھنس چکی ہیں اور ساحل کا دور دور تک پتہ نہیں !! اُمید کی چند کرنیں یقینا جگمگائیں ، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ…!! ٭ ستمبر 1969ء میں شاہ فیصل کی مھمیز اور چند دوسرے درد مند حکمرانوں کے تعاون سے مراکش میں اسلامی ممالک کی تنظیم OIC کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور رشتہ ٴیگانگت قائم کرنے کی یہ اچھی ابتدا تھی لیکن تینتیس سال گذرنے کے بعد بھی یہ تنظیم اپنی افادیت ثابت نہیں کرسکی ہے۔سیاسی میدان میں چاہے فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کے سلسلہ میں پاکستان کے موقف کی عملی حمایت، ایران و عراق کی آٹھ سالہ خونی جنگ ہو یا کویت پرعراق کا غاصبانہ قبضہ، کیا یہ تنظیم ان میں سے کسی بھی مسئلہ کو حل کرسکی ہے؟ ٭ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں IFSTAD (انٹرنیشنل فاوٴنڈیشن فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) اور COMSTECH (سٹینڈنگ کمیشن فار سائنٹفک اینڈ ٹیکنالوجیکل کوآپریشن) کا قیام نہایت خوش آئند اقدامات تھے، لیکن پہلاادارہ تو سرے سے سر ہی نہ اُٹھا سکا اور دوسرا ادارہ بھی ایک کاغذی شیر سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ ٭ اقتصادی میدان میں IDB (اسلامک ڈویلپمنٹ بنک) اس لئے قائم کیا گیاتھا کہ بلاسود بنکاری کوفروغ دیا جاسکے۔ اس میدان میں یقینا کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن ’او آئی سی‘ کو اپنی بقا کے جواز کے لئے کسی انقلابی اقدام کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے پہلے سیکرٹری جنرل ملائیشیا کے تنکوعبدالرحمن نے اس تنظیم کو کھڑا کرنے، اسکی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور اس کے ذیلی اداروں کو قائم کرنے میں بہت فعال کردار ادا کیا لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ان کے اَخلاف ان کی اعلیٰ روایات کوباقی نہیں رکھ سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مہاتیر محمد (سابق وزیراعظم ملائیشیا) نے ’او آئی سی‘ کے آخری اجلاس میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش جن مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے حل تلاش کرنے پر سنجیدہ گفتگو کی جاتی لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مہاتیر محمد بھی نشست و گفتند و برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکے۔21
Flag Counter