(8) وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کا اتحاد یہ ذمہ داری ان سیاستدانوں ، حکمرانوں ، قوموں کی قسمتوں سے کھیلنے والے جرنیلوں ، بادشاہوں اور آمروں سے متعلق ہے جو یا تو آئینی طور پر، یا کسی کائناتی حادثہ کے طور پر، یا کسی داخلی یا خارجی طاقت کے اشارہ پر یا ایک تاریخی تسلسل کے طور پر حکومت کا بار اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہیں ۔ ان کی مجموعی تعداد مسلم ممالک کے اعتبار سے 57بنتی ہے۔ خیال رہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ جس نے انگریزوں کے تسلط سے ایک طویل جنگ آزادی کے بعد 4 جولائی 1776ء کو جنم لیا تھا اور جو ابتدائی تیرہ ریاستوں سے بڑھ کر آج پچاس ریاستوں پر مبنی ایک عظیم الشان ملک ہے، اپنی طاقت کا راز کس چیزمیں سمجھتا ہے؟ جوابا ً عرض ہے کہ پچھلے سال ’مجمع علماء الشریعہ، امریکہ‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے واشنگٹن جانا ہوا، ہلٹن ہوٹل کی لفٹ میں چند لمحوں کے وقوف کے دوران لفٹ کی مختصر اسکرین پرایک سطر بار بار فلیش ہورہی تھی : ”ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طاقت کا راز کیا ہے… اتحاد“ یہ بھی واضح رہے کہ امریکہ میں ایک قوم نہیں بستی ہے، بلکہ قدیم ریڈ انڈین امریکنوں کی قلیل تعداد (جن کی اکثریت کی نسل کشی کی جاچکی ہے) کے علاوہ یورپ کے ہر خطے کے،بلکہ دنیا کے ہر علاقے کے لوگ موجود ہیں ۔انگریزی کے علاوہ جنوب کی ریاستوں میں اسپینش زبان کو بحیثیت ِثانوی زبان کے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ فرانسیسی اور جرمن کا بھی بعض علاقوں میں دور دورہ ہے۔ ایک صدی قبل شمال اور جنوب کی ریاستوں میں غلامی کے مسئلہ پر سخت محاذ آرائی بھی ہوچکی ہے، لیکن ان تمام منفی عوامل کے باوجود بین الریاستی اتحاد نے آج امریکہ کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ کوس لمن الملك اليوم بجاتا نظر آتا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک کی آزادی کی تاریخ چونکہ پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے متجاوز نہیں ، اس لئے ان کا مقابلہ امریکہ جیسی وحدت سے کرنا صحیح نہ ہوگا۔ ہمارے اوپرماضی کی اس نسل کو ہدیہ تبریک دینا فرض ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات میں آزادی کی تحریکات برپاکیں اور پھر یورپ کی استعماری طاقتوں سے قربانی، سرفروشی اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کرنے کے بعد آزادی حاصل کی۔ یہ جدوجہد عوام، علما اور سیاستدانوں کی ملی جلی کوششوں کانتیجہ تھی |