کی اعلیٰ تعلیمات کے عملی مظاہر سامنے آسکیں ۔ قرآن و سنت، اُسوہ ٴ رسول اور تعامل ِصحابہ اُمت کا مشترکہ سرمایہ ہیں ۔ یہ ہمارے اتحاد اور طاقت کا باعث ہیں ۔ اگر مسلمانوں کے تمام فرقے ان اساسات پر جمع نہیں ہوسکتے تو پھر انہیں محکومیت، اغیار کی غلامی، عمومی ذلت اور نکبت سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ا س امت کو دین حق پر قائم و دائم رکھنے کے لئے حفظ ِقرآن (جس میں سنت بحیثیت ِشرح قرآن بھی شامل ہے) اور وجود طائفہ منصورہ کی شکل میں دو ایسے عوامل رکھے ہیں جو حق کومٹنے یا دین میں تحریف پیداہونے سے مانع ہیں ۔ طائفہ منصورہ سے ہماری مراد ہر وہ فرد، گروہ یا جماعت ہے جو اس حدیث کا مصداق ہے: (لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمرالله وهم كذلك) 19 ”میری اُمت میں برابر ایک گروہ ایسا رہے گا جو غالب رہے گا، حق پر ہوگا، انہیں چھوڑ کر جانے والے انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا۔“ اس حدیث کا ابہام دوسری روایت سے دور ہوجاتا ہے: (لا تزال طائفة من أمتى يقاتلون على الحق، ظاهرين على من ناواهم حتى يقاتل آخرهم المسيحَ الدجال) 20 ”میری اُمت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا، اپنے مخالفین پر غالب رہے گا یہاں تک کہ ان کا آخری فرد (یا مجموعہ) مسیح دجال سے قتال کرے گا۔“ یعنی ایسے لوگ جن کی زبان، قلم اور ہاتھ سے حق کا ظہو رہوتا رہے گا اور وہ کسی بھی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر حق کا پیغام پہنچاتے رہیں گے، یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے یہ دنیا اپنی آخری اجل کو پہنچ جائے گی۔ ایسی جماعت ہر وہ جماعت ہے جو عقیدۂ توحید پر مضبوطی سے قائم ہو، اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کو من و عن بیان کرنے کی پابند ہو، جس کی صفوں میں تقویٰ اور للہیت کا دور دورہ ہو، جس کی امارت برادری ازم، قبائلیت یا لسانی و صوبائی عصبیت یا خاندانی توارث کے لزوم سے مبرا ہو۔ صرف تقویٰ، صلاحیت اور حسن تدبیر (سیاست ِشرعیہ) کے بل بوتے پر منتخب کی گئی ہو۔ یہ سب نہ ہو تو صرف ادعاء پارسائی، منافقت اور مکاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ |