Maktaba Wahhabi

56 - 142
اُخوت، محبت اور یگانگت پر رکھی گئی تھی۔مہاجر اور انصار کے دونوں معزز لقب اپنے اپنے اوصافِ حمیدہ کی بنا پر وحی الٰہی میں جگہ پاگئے : ﴿وَالسَّابِقُوْنَ الأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالأَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإحْسَانٍ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍِ تَجْرِىْ تَحْتَهَا الأَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبه:100) ”اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور متقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ لیکن جب انہی دونوں جماعتوں کے دو افراد ایک کنویں سے پانی نکالنے پرجھگڑ پڑے اور مہاجر نے مہاجرین کی دہائی دی اور انصاری نے انصار کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کام چھوڑ چھاڑ کر موقع نزاع پرپہنچے اور ببانگ ِدُھل ارشاد فرمایا: ( أ بدعوى الجاهلية وأنا بين أظهركم) ”جاہلیت کا نعرہ لگاتے ہو، حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان ہوں ۔“18 یعنی وہ معزز لقب جوہجرت اور نصرت کے اعتبار سے انتہائی معزز اور قابل صد افتخار تھا، جب دو جماعتوں کو لڑانے کے لئے استعمال کیا گیا تو جاہلیت کانعرہ کھلایا گیا، وہ جاہلیت جسے قبل از اسلام کفریہ دور سے تعبیر کیاجاتا تھا۔ کیا پاکستانی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ یہاں بھی صوبائیت اور مہاجرت کے نام پر بھائی بھائی کی گردن کاٹی گئی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور پھر بھی اللھ کی نصرت کی اُمید کی جاتی ہے!! عرب ممالک میں قومیت کا نعرہ بڑی شان سے بلند کیا گیا، لیکن یہ نعرہ یہودیوں کی چھوٹی سی ریاست کا مقابلہ کرنے یا اہل فلسطین کو ان کی سرزمین واپس لوٹانے میں عربوں کی کوئی مدد نہیں کرسکا، عرب لیگ آج ایک بے جان لاشہ ہے جو تجہیز و تکفین کامنتظر ہے۔صدام اور حافظ الاسد کی بعث پارٹی کے نام سے ایک بے خدا تحریک آپس میں جنگ وجدال، قتل و غارت اور سفاکی و درندگی کا ننگا ناچ ناچنے کے بعد خود بھی ڈوبی اور اپنی قوم کو بھی لے ڈوبی۔ کیا اب بھی اس کی باقیاتِ سیۂ سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟
Flag Counter