(1)یہ نہیں کہا گیاکہ اتنی قوت فراہم کرو جتنی اعداءِ اسلام کے پاس ہے ،بلکہ اتنی جتنی کہ تم استطاعت رکھتے ہو۔ اس میں افرادی قوت بھی آجاتی ہے اور آلاتِ حرب بھی۔ (2)’قوت‘کا بیان کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ألا إن القوة الرمي، ألا إن القوة الرمي ”تیری اندازی ہی قوت ہے، سنو! تیر اندازی ہی قوت ہے۔“ 15 یعنی زمانہٴ نبوت میں جو قدرت رائج تھی آپ نے اس کا تذکرہ فرمایا۔ بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے منجنیق، گولہ بارود اور دیگر آلاتِ حرب کو بھی استعمال کیا، اور اس کا یہ مطلب ہوا کہ موجودہ دور میں جو چیز عسکری لحاظ سے ایک قوم کو تقویت بہم پہنچاتی ہے، وہی قوت ہے۔ چاہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی شکل میں ہو، ایٹمی طاقت کے حصول میں ہو، لڑاکا طیاروں ، جنگی بیڑوں اور آبدوزوں کا روپ رکھتی ہو، ٹینکوں ، آرمرڈ گاڑیوں ، میزائلوں کی صورت رکھتی ہو، ان سب کا حصول ضروری ہے!! (3)رباط الخیل(گھوڑوں کے دستوں ) کے تیار کرنے کا بھی حکم دیا گیاہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر گھوڑے عسکری نقل و حرکت کے لئے استعمال ہوتے تھے تو آج ہر وہ گاڑی (جس کے انجن کی طاقت کو اب بھی ہارس پاور کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے) جو اس مقصد کے لئے استعمال ہو اور جس کی پیٹھ پر جنگ میں حصہ لیا جاسکے، رباط الخیل کے حکم میں ہے یعنی قوت کی فراہمی کے ساتھ اس قوت کے استعمال میں مددگار آلات دونوں مطلوب ہیں ۔ (4)قوت کی فراہمی دورِ امن میں بھی مطلوب ہے تاکہ دشمن پر دہاک بٹھائی جاسکے، دشمن کی تیاریوں سے غافل رہنا اور پھر اچانک حملے کی صورت میں سراسیمگی کا شکار ہوجانا ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رومیوں کے متوقع حملہ کی پیش بندی کے لئے خود بنفس نفیس لشکر ِاسلام کے ساتھ تبوک جانا اسی مقصد کی خاطر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مملکت ِاسلام کی سرحدوں تک جانا دشمن کے لئے ہمت شکن ثابت ہوا اور انہیں حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ (5)قوت کی فراہمی میں جو کچھ خرچ کیاجائے گا، فی سبیل اللہ کے حکم میں ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ |