بھی رہائش پذیر ہوں ، مسجد ان کامرکز و محورٹھہرے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قیام سے مدینہ کی زندگی کا آغاز کیا اور مسلمان جہاں کہیں گئے، اس سنت ِنبوی کی پاسداری کرتے رہے۔ مسجد کا قائم کرنا اقامت ِصلوٰۃ کی راہ ہموار کرتا ہے، مسلمانوں کے اجتماعی نظم کی بنیاد رکھتا ہے، اطاعت ِامیر کا جذبہ پیداکرتا ہے، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کاموجب بنتا ہے، مسلمان گہرانوں میں اُلفت و محبت، ہمدردی اور غم خواری کے خوابیدہ سوتوں کوبیدار کرتا ہے۔ مکہ میں قائم عبادت کے پہلے گھر کو بیت اللھ کہا گیا اور اس نسبت سے ہر مسجد اللہ کی طرف منسوب ہوئی: ﴿فِيْ بُيُوْتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُه﴾ ”ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔“ ان گھروں کو آباد کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے خود تحسین فرمائی: ﴿يُسَبِّحُ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ رِجَالٌ لاَّ تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَإقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالأَبْصَارُ﴾ ”وہاں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں اُلٹ پلٹ ہوجائیں گی۔“ اور پھر ان کے لئے اجر جزیل کا مژدہ سنایا: ﴿لِيَجْزِيَهُمْ اللهُ أحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (النور:36 تا38) ”تاکہ اللہ ان کے اعمال کا بھرین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادہ عطا فرمائے اور اللہ جسے چاہے بے شمار رزق عطا کرتا ہے۔“ ایک صالح معاشرہ کی علامت مسجدوں کا آباد ہونا اور حکامِ مملکت سے لے کر ادنیٰ چپڑاسی تک کا مسجد سے تعلق رکھنا ہے۔ اس تعلق میں جہاں کمی آئے گی وہاں اللہ کی رحمت دور ہوتی چلی جائے گی۔ اُمت ِمسلمہ کے لئے نماز کی پابندی اور مسجدوں کی حاضری وہ پیمانہ ہے جس سے رضاے الٰہی اور قربت ِخداوندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افسوس ہے اس پیمانہ سے نظریں چرائی جاتی ہیں ۔ ناکامی کے اسباب گنوائے جاتے ہیں لیکن اس سبب ِاعظم کاادراک نہیں کیاجاتا۔ |