Maktaba Wahhabi

45 - 142
مظاہر میں ڈنڈی مارنے والوں کی عظیم اکثریت ہے۔ ٭ ایسا قیام جو ایک مقتدا یا پیشوا کے احترام کے لئے ہو،ناجائز قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا تقو موا إلىّ كما يقوم الأعا جم لملوكهم) 8 ”میرے لئے اسطرح کھڑے نہ رہو جیسے عجمی اپنے بادشاہوں کیلئے کھڑے ہوتے ہیں ۔“ سلام کرتے وقت رکوع کی حد تک جھک جانا، پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک ممبر کا اسپیکر کے سامنے جھکنا، رکوع سے مشابہت کی بنا پر ممنوع قرار پایا۔ کسی مخلوق کے لئے پیشانی زمین پر رکھنا اللہ تعالیٰ کے حق سجود کی حق تلفی ہے ۔ (استعينوا على إنجاح الحوائج بكتمانها فإن كل ذى نعمة محسود) 9 ”اپنی حاجات پوری کرنے کے لئے راز داری کے ساتھ ایک دوسرے سے مدد چاہو، کیونکہ جس پر نعمت ہو، اس سے حسد کیا جاتا ہے“٭ کہہ کر اسباب کی حد تک ایک د وسرے سے مدد طلب کرنے کی اجازت دے دی۔اور ﴿إيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾کے واضح اعلان کے ساتھ ماورا الاسباب استعانت بغیراللہ کی نفی کردی۔ ٭ ﴿فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَى الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهِ﴾”اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا (موسیٰ علیہ السلام ) سے فریاد کی۔“ (القصص:15)کا بیان موجود و حاضر شخص سے مدد کی درخواست کو شرفِ قبولیت عطاکرگیا اور بدر کی رات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے استغاثہ بفحواے آیت قرآنی ﴿إذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلاَئِكَةِ مُرْدِفِيْنَ﴾ ”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے ربّ سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے۔“ (الانفال:9) یہ بتاتا چلا گیا کہ ماوراء الاسباب استغاثہ صرف اللہ کی ذات سے کیا جاسکتا ہے۔ لاریب کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ بدر کے لئے مادّی اسبا ب مہیا کرنے، اپنے جانثاروں کو مدینہ سے بدر تک لے آنے کے بعد اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کراس مدد کو چاہا تھا جس پر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات قادر ہے۔ قسم اُٹھانے کو بھی اللہ کے ساتھ خاص کردیا۔فرمایا: (من كان خالفا فليحلف بالله أوليصمت) 10 ”جس نے قسم کھانی ہو تو اللہ کے نام کی قسم کھائے ،وگرنہ خاموش رہے۔“ ٭ یہ روایت ضعیف اور موضوع ہے ۔کما فی الضعفاء للعقیلی واللائی المصنوعۃ للسیوطی ( محدث )
Flag Counter