الْفَاسِقُوْنَ﴾ (نور:55) ”تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جوان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں ۔“ اس آیت میں عظیم معانی پنہاں ہیں جو عصر حاضر کی تحریکات کے لئے نقش ِراہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن سے صرفِ نظر کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی مدد کو اپنے سے دور کرنا ہے۔ زمین میں خلافت … اللہ کا انعام ہے نہ کہ اصل غایت! (1)استخلاف في الأرض اللھ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو آیت میں دی گئی شروط کے متحقق ہونے پر لازماً واقع ہوگا، لیکن یہ غایت یا مقصد نہیں ہے۔انسانیت کی غایت وہی ہے جو اس آیت کے آخر میں بتائی گئی ہے اور جسے واضح طور پر اس آیت ِکریمہ میں بتایا گیا ہے : ﴿ وَماَ خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إلاَّ لِيَعْبُدُوْنِ، مَا أُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَا أُرِيْدُ أَنْ يُّطْعِمُوْنِ، إنَّ اللهَ هُوَّ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾ (الذاریات:56 تا58) ”میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیاہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ، نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں ، نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں ، توانائی والا، زور آور ہے۔“ اس وعدۂ الٰہی کے سب سے پہلے مصداق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کہاں مکہ کی سرزمین پر تن تنہا توحید ِالٰہی کا نعرہ لگانے والا آمنہ کے لال، جس کے خون کے درپے تمام کفارِ مکہ تھے اور کہاں وہ عظمت و سطوت کہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو سارے جزیرۂ عرب پران کا جھنڈا سربلند تھا۔ دین ِاسلام گھر گھر داخل ہوچکاتھا اور سرزمین عرب امن کا گہوارہ بن چکی تھی۔ اس کے دوسرے مصداق صحابہ رضی اللہ عنہم کی وہ صادق جماعت تھی جنہوں نے خلفاءِ راشدین کی سرپرستی میں دعوتِ حق کو مشرق و مغرب تک پھیلا دیا اور اپنے وقت کی دو عظیم سلطنتوں یعنی روم و فارس کو شکست سے دو چار کیا اور تثلیث مجوسیت کے ویرانوں کو توحید کے خزانے سے مالا مال |