کردیا۔ یہ اس لئے ممکن ہوسکا کہ یہ جماعت ِحقہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو پھیلانے کے لئے اور شرک کے قلعوں کو مسمار کرنے کے لئے اٹھی تھی۔ ان کے عزمِ صادق، جذبہ وحدانیت اور بندگی ربّ کے سامنے شرک کے آہنی قلعے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ اور پھر چشم فلک نے بار بار یہ نظارہ دیکھاکہ جب بھی مسلمان خالص اللہ کے بھروسہ پر اعداءِ اسلام کے سامنے کھڑے ہوئے فتح و نصرت ان کی قدم بوسی کرتی رہی۔ اور اس کے شاہد ہیں صلاح الدین ایوبی بمقابلہ صلیبی (معرکہ حطین 1187ء)، محمد الفاتح بمقابلہ بازنطینی سلطنت (فتح قسطنطنیہ 1451ء)، احمد شاہ ابدالی بمقابلہ مرہٹے (معرکہ پانی پت 1761ء) اور بے شمار دوسرے معرکے جوکفر پر حق کی بالا دستی قائم کرتے رہے۔ (2)خلافت ِالٰہی کا نفاذ اسلام کے مجموعی نظام کا ایک حصہ تھا نہ کہ غایت، لیکن عصر حاضر کی جن جن تحریکوں نے اسے غایت کے طور پر اپنایا، انہیں کہیں نہ کہیں شرکیات سے صرفِ نظر کرنے یا اس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ نتيجةًع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم! ہمارا مدعا واضح ہے کہ غایت کو غایت رکھا جائے اور وعدے کو وعدہ!! ایک طالب ِعلم کا کام ہے کہ وہ خوب محنت سے پڑھائی کرے، کتابوں کو حرزِجان بنائے تاکہ امتحان میں پاس ہو، استاد نے اوّل آنے والے کے لئے انعام کا وعدہ کیا ہے،وہ اسے مل کر رہے گا۔ اگر اس نے اس کا استحقاق پیدا کرلیا، لیکن یہ کہ طالب علم نہ پڑھائی کرتا ہے اور نہ ہی امتحان میں پاس ہونے کی تگ و دو ، بلکہ اس فکر میں رہتا ہے کہ انعام کو کسی طرح استاد کے ہاتھ سے اُچک لوں ، تو شائد دنیا کی حد تک کوئی طالب علم ایسا کربھی گزرسکتا ہے، گو نیک کام نہیں کھلائے گا، لیکن ربّ العزت کے ہاتھ سے اس انعام کو اچکنے کی طاقت کسی کے ہاتھ میں نہ تھی اور نہ ہوگی۔ غرض وحدانیت ِباری تعالیٰ اور عبودیت ِحقہ کے ساتھ جب بھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا جائے گا تو موانع کی عدم موجودگی میں یقینا وعدۂ الٰہی پورا ہوگا۔ ان موانع کا تذکرہ بعد میں آرہا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک روشن مثال دو سو سال قبل شرو ع ہونے والی شیخ محمد بن عبدالوہاب (ف1792ء/1206ہ) کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک ہے جو خالص توحید ِالٰہی کا |