گویا اللہ تعالیٰ آزمائشوں کے ذریعہ توبہ اور نصیحت و عبرت حاصل کرنے کا موقع عطا کرتے رہتے ہیں ، لیکن پھر بھی اگر اصلاحِ احوال کی کوشش نہ کی جائے، بگاڑ کوسدھارا نہ جائے، غلط کار لوگوں کے ہاتھوں کو پکڑا نہ جائے تو پھر بدبختی کا شکوہ کرتے رہنا بجا نہ ہوگا۔ احادیث ِنبویہ کی روشنی میں اسباب زوالِ اُمت: اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرنے اور بدکاروں کا ہاتھ پکڑنے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمثیل بیان کرتے ہیں ۔ نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والوں اور اس میں لاپرواہی برتنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگوں نے سمندری جہاز میں جگہ حاصل کرنے پر قرعہ اندازی کی، کچھ لوگوں کو اُوپر کی منزل (یعنی عرشہ پر) اور کچھ لوگوں کو نچلے حصہ میں جگہ ملی۔ نچلی منزل والے لوگ جب پانی بھرنے کے خواہشمند ہوتے تو اوپر والوں پر سے گزرتے۔اس پر عرشے والے کہتے ہیں : ہم تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ تم ہمیں برابر تکلیف پہنچاتے رہو، اس پر نچلی منزل والوں نے کہا: کیوں نہ ہم اپنے حصہ میں سوراخ کرلیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں ۔ اگر (کشتی کے مسافرین) انہیں اپنے ارادے پر عمل کرنے دیں تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے، لیکن اگر سب ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو سب کے سب نجات پائیں گے۔“2 (3) اُمت ِمسلمہ کی زبوں حالی کا ایک نقشہ اس حدیث میں کھینچا گیا ہے جس کے راوی ثوبان ہیں اور جس کے آخر میں وہ سبب سبھی بتلا دیا گیا ہے جو اس ذلت و رسوائی کا باعث بنا ہے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ”عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ کسی نے پوچھا: کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: نہیں تمہاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس وخاشاک کی مانند ہوگے، اللہ تمہارے دشمن کے سینے سے تمہارا رُعب چھین لے گا اور تمہارے دلوں میں ’وہن‘ ڈال دے گا۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول یہ’ وہن‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی محبت اور موت (یعنی شہادت) سے نفرت“3 (4)اگر ایک طرف حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ میں اس اُمت کی حالت ضعف کی تصویر کھینچی گئی ہے تو یہی ثوبان رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بھی راوی ہیں جس میں اس اُمت کے عزو افتخار کو بیان کیا گیا ہے، |