کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اسی سنت ِالٰہی کو سورۂ شوریٰ میں ان الفاظ میں بتایا: ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْعَنْ كَثِيْرٍ﴾ (الشوریٰ:30) ”تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔“ (2) اس بات کا خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جس کی پاسداری کرنا اس کے لئے ضروری ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے بندوں سے ایسا کوئی غیر مشروط وعدہ کیا ہے جس کی بنا پر ہر حالت میں اللہ پر اُن کی مدد لازم ہو۔ جو بھی وعدہ ہے وہ مشروط ہے: ﴿إنْ تَنْصُرُوْ ا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾ (سورۂ محمد:7) ”اگر تم اللہ (کے دین)کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔“ ﴿وَلاَ تَهِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إنْ كُنْتُمْ مُوٴمِنِيْنَ﴾ (آل عمران:139) ”تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو۔“ اور جس آیت سے ایسی مدد کا لازمی آنا سمجھا جاسکتا ہے، وھ بھی ایمان سے مشروط ہے۔ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُوٴمِنِيْنَ﴾ (الروم:47) ”ہم پر موٴمنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔“ بلکہ اس بات کو واضح کردیا کہ ظلم و سرکشی کی بنا پر جو عتاب و عقاب نازل ہوتا ہے تو پھر وہ بلاے عام بن جاتا ہے : ﴿وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لاَّ تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ ”اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص کر انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔“ (الانفال:25) حوادثِ زمانہ کے وقت یہ سنت ِالٰہی بھی پیش نظر رہے جواکثر لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ ﴿أَوَلاَ يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِىْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةٍ أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّّ لاَ يَتُوْبُوْنَ وَلاَ هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ﴾(التوبہ:126) ”اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دوبار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں ۔ پہربھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں ۔“ |