گناہوں کی کثرت مصائب کے نزول کا باعث بنتی ہے۔ جنگ ِاُحد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں ، لیکن اس کے باوجود جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کے عقب میں ایک گھاٹی پر تیس کے قریب تیر انداز مقرر کئے تھے اور ہدایت کی تھی کہ میدانِ جنگ کا نقشہ کچھ بھی ہو، ہمارے اُوپر جیسے بھی حالات آئیں ، تم نے کسی حالت میں اِس گھاٹی سے ہٹنا نہیں ہے۔جنگ کے آغاز میں جب مسلمانوں کا پلہ بھاری دکھائی دیا تو انہی تیراندازوں میں سے چند حضرات نے اپنے امیر عبداللہ بن حبیر سے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ بھگوڑے کفار کا مال غنیمت ہاتھ میں آئے۔ امیرنے حکم نبوی یاد دلایا، لیکن ان جنگجووٴں کی اکثریت پر’حب ِعاجلہ‘ غالب رہی۔ جونہی انہوں نے گھاٹی کو چھوڑا، کفار کی طرف سے خالد بن ولید نے اچانک حملہ کردیا۔ بچے کچے تیر اندازوں کو بآسانی مغلوب کرلیا اور اس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر عقب سے حملہ کرکے مسلمانوں کی جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کردیا۔ مسلمان حیران و سراسیمہ ہیں کہ یہ کیسے ہوگیا! جواباً وحی الٰہی میں انہیں یاددلایا جارہا ہے: ﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللهُ وَعْدَه إذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِإذْنِه حَتّٰى إذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِىْ الاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا ُتحِبُّوْنَ، مِنْكُمْ مَنْ يُرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُرِيْدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ، وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُوٴمِنِيْنَ﴾(آلِ عمران:152) ”اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنے وعدہ سچا کر دکھایا، جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی۔ تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھااور پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقینا اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرمایا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔“ اور پھر فرمایا: ﴿أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيْبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنّٰى هٰذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ﴾ (آل عمران:165) ”(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے تو یہ |