Maktaba Wahhabi

26 - 142
رائے ہوکر کسی دوسرے شخص کو اس شادی شدہ خاتون سے زنا کرنے کی اجازت دے دیں ۔ (3)یہ کہ ایک عورت کویہ حق حاصل ہے کہ وہ زنا کے جرم میں تو برابر کی شریک ہو۔ لیکن زنا کا مقدمہ صرف مرد پر قائم کیا جائے اورعورت کو شریک ِجرم ہونے کے باوجود سزا سے مستثنیٰ سمجھا جائے۔ (4)کیا زناکی مرتکب خاتون کا صرف شوہر ہی اس کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا حق رکھتاہے ۔ اور شوہر سے چوری چوری اس جرم کی مرتکب عورت سے متعلق حقائق جاننے والے شخص یااشخاص کو اس جرم پر معاشرہ کی بھلائی کے لئے مقدمہ درج کروانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ (5)کیا زنا کے مرتکب عورت اور مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زبردستی زنا کے بعد ایک دوسرے کے معاف کردیں اور معاشرے میں برائی پھیلانے والے اس عمل پر ہرقانون کو غیر موٴثر بنادیں ۔ (6)کیا زنا بالجبر کامجرم صرف مرد ہی ہوسکتا ہے۔عورت اگر اس جرم کی مرتکب ہو تو کیا اسے حق حاصل ہے کہ اسے اس کام کی کھلی چھٹی دے دی جائے!! یہ ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق جو سابقہ قانون میں مہیا کئے گئے تھے اور حدود آرڈیننس نے جنہیں غیر قانونی قرار دے کر انہیں سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں واقعی یہ تمام اعمال بنیادی انسانی حقوق میں شامل تصور کئے جاتے ہیں اور رضا مندی سے شادی شدہ عورتوں کا ارتکابِ زنا اور کنواری لڑکیوں کا بوائے فرینڈز سے جنسی اختلاط ان کا حق سمجھا جاتاہے لیکن ایک اسلامی معاشرہ اپنے شہریوں کو مذکورہ بالا حقوق عطاکرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ اصل میں یہی تفاوت ہے جس نے اہل مغرب اور ان کی پروردہ این جی اوز کو پریشان کررکھاہے اور دنیابھر میں حدود قوانین کے خلاف واویلا کیاجارہا ہے۔ اس واویلے کااصل مقصد بنیادی انسانی حقوق کاتحفظ نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے اور اسلامی اقدارکے استحکام کو رو بہ تنزل کرناہے۔ حالانکہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے انسانی حقوق کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں حسب ِذیل رائے دی تھی :
Flag Counter