Maktaba Wahhabi

27 - 142
”اسلام نے زنا کے جرم کو جتنا سنگین قرار دیا ہے اور اس کے لئے بطورِ حد جس قدر سنگین سزا مقرر کی ہے، اتنی ہی کڑی شرائط اس کے ثبوت کے لئے بھی رکھی ہیں ۔ چنانچہ حد کے سلسلے میں اس کی گواہی کا معیار عام گواہیوں سے دوگنا ہے اور اگر اس کے الزام کو ثابت نہ کیا جاسکے تو الزام لگانے والے کو قذف کا مستوجب قرار دیاگیاہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ شہادت کا یہ غیر معمولی معیار حد سے متعلق ہے لیکن تعزیر میں بھی اسلامی احکام کی اس روح کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی شخص پر زنا کو اس وقت تک ثابت نہ مانا جائے جب تک عدالت مضبوط دلائل کی روشنی میں اس کے ارتکاب پر پوری طرح مطمئن نہ ہوجائے۔“(پی ایل ڈی 1982ء ایف ایس سی صفحہ 87) یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بھی مفید ہوگا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا یہ واویلا دراصل پاکستان کی ان این جی اوز کی رپورٹوں کی بازگشت ہے جسے وہ بڑے تواتر سے عالمی اداروں کوبھیجتے رہتے ہیں اور ان میں پاکستان کے فرضی اعداد وشمار پیش کرکے واقعاتی صورتحال کو بلاوجہ سنگین بنا کر پیش کی جاتا ہے۔ان لادین این جی اوز میں قادیانی اور عیسائی بکثرت مصروفِ کار ہیں جو وسیع سہولیات اور بڑی تنخواہیں حاصل کرکے ملک کے خلاف یہ پروپیگنڈہ بڑے شدومد سے کررہے ہیں ۔ محدث کے ان صفحات میں اس سے قبل پاکستان کے خوساختہ انسانی حقوق کمیشن جو عاصمہ جہانگیر کے تحت مصروفِ کار ہے، کی رپورٹوں اور اقوام متحدہ وامریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹوں میں حیران کن مماثلت کی باقاعدہ تقابل کے بعد نشاندہی کی جاچکی ہے۔باخبر حضرات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ۔ (اگست 1999ء) علاوہ ازیں حدود آرڈیننس کے خلاف حکومت کے زیرنگرانی اس تحریک کا اہم مقصد اس لادین ثقافت کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے جس کی طرف یورپی ممالک عرصہ دراز سے مسلم ممالک کو لانے کا منظم منصوبہ بنائے ہوئے ہیں ۔ اس لادین ثقافت کو مسلم ممالک پر لاگو کرنے کے لئے پہلے قاہرہ کانفرنس، بعدازں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس میں دنیا بھر کو انتہائی شرمناک ایجنڈا دیا گیا ہے ، اس کے اباحیت پسند نکات کی نشاہدہی اس سے قبل محدث کے صفحات (جولائی 2000)میں بارہا کی جا چکی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس ایجنڈے کو ملک میں لاگو کرنے پر دستخط کررکھے ہیں ، اور یہ حدود قوانین
Flag Counter