Maktaba Wahhabi

25 - 142
اقوامِ متحدہ نے 1948ء میں ایک عالمی ہیومن رائٹس ڈکلریشن جاری کیا تھا۔ اس اعلانِ حقوق انسانی میں واضح طور پر اس امر کی ضمانت موجود ہے کہ دنیا میں ہر شخص اور ملک کو اپنے دینی اور مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے بہت سے مقدمات میں بنیادی انسانی حقوق اور اسلام کے حوالے تعرضات پر مباحث کے بعد فیصلے صادر کئے ہیں ۔ جن کاعطر یہ ہے کہ اقوام متحدھ کے عالمی چارٹر اور اسلامی اُصولوں کی روشنی میں قرآن اور سنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کاسپریم قانون ہے۔ قرآن وسنت سے متصادم کوئی قانون سازی اس ملک میں نہیں کی جاسکتی۔ مزید یہ کہ مغرب اور دنیا میں مروّجہ انسانی حقوق کی کوئی شکل اگر قرآن وسنت میں بیان کردہ اُصولوں سے متصادم ہو تو ایسی صورت میں وہ کالعدم قرار پائے گی اور قرآن و سنت کا اُصول اس پر مقدم سمجھا جائے گا۔ لہٰذا حدود آرڈیننس کی کسی شق کو وفاقی شرعی عدالت سے قرآن و سنت کے منافی قرار دلوائے بغیر انسانی حقوق سے متعلق کسی اُصول کو اس قانون سے فائق جان کر قانون کو تبدیل یا منسوخ کرنا غیر آئینی اور غیر قانون ہوگا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ خود امریکہ کی سپریم کورٹ نے سوکس کیس (اے ایل آر؛871) میں فیصلہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم رائے کا اظہار کیا جس کامفہوم حسب ِذیل ہے : ”ایسا عمل جو شہریوں کی اکثریت کے مذہبی عقائد کو مجروح کرنے والا ہو، جرم کے زمرے میں آتا ہے۔“ پاکستان کے حدود قوانین بھی یہاں کے شہریوں کے مذہبی عقائد کی اکثریت کے ترجمان ہیں ۔ لہٰذا اگر ان پر مغربی مفکرین کی آرا کو فوقیت دی گئی تو یہ بجائے خودایک جرم کے مترادف ہوگا۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ انسانی حقوق کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے : (1)کیا کسی غیر شادی شدہ عورت کو اسلامی معاشرے میں یہ حق دیاجاسکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ساتھ جس مرد کے ساتھ چاہے زنا کرے اوراس پر کوئی قدغن نہ ہو؟ (2)کیاکسی شادی شدہ عورت یا اس کے شوہرکو یہ حق تفویض کیا جاسکتا ہے کہ وہ دونوں ہم
Flag Counter