فیصد واقعات ہوتے ہیں ۔ باقی شہروں کے اعدادوشمار اگرچہ میسر نہیں ہیں لیکن اندازہ ہے کہ ان میں بھی عورتوں کو غلط طور پر ملوث کئے جانے کاتناسب اور شرح اِسی کے لگ بھگ ہوگی۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر ایک بات تو طے ہے کہ اصل مسودہ قانون میں کوئی نقص نہیں ہے اور یہ قانون دھوکہ سے اغوا ہونے والی خواتین کے یکسر بے گناہ اور بے قصور قرار دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر دوسرے عام ملکی قوانین کی پولیس اہلکار اس قانون کو بھی حرام کمائی کاذریعہ بنانے کے لئے غلط طور پر استعمال کررہے ہیں تو ان کامحاسبہ ہونا چاہئے، نہ کہ قانون کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کے مطالبہ پر اصرار!! حدود قوانين اور انسانى حقوق آٹھواں اعتراض:حدود قوانین بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں ، اس لئے انہیں منسوخ کردینا چاہئے۔ یہ اعتراض بھی مغرب سے متاثر ’روشن خیال‘ حلقوں اورتنظیموں کی طرف سے گذشتہ کئی سالوں سے اُٹھایا جارہا ہے۔ اس سال مئی میں حکومت ِامریکہ کے قائم کردہ انسانی حقوق کمیشن نے عالمی صورت حال سے متعلق جو رپورٹ حکومت امریکہ کو پیش کی ہے۔ اس میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ پاکستان میں نافذ شدہ حدود قوانین کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت ِامریکہ اپنے سفارتی ذرائع استعمال کرے اوران قوانین کوختم یا تبدیل کروانے کے لئے اثرورسوخ بروئے کار لائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اس قانون کے معترض ان شقوں کی نشاندہی کرنے سے گریز کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں ۔ بنیادی انسانی حقوق کو مجروح کرنی شقوں کی واضح نشاندہی نہ ہونے کے باعث اس اعتراض پر تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہے۔ لیکن ہم یہاں بنیادی انسانی حقوق اور معاشرتی امن و امان کے حوالے سے حدود آرڈیننس کے حسن و قبح کا خود ایک جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ |