﴿إنَّمَا أَشْکُوْ بَثِّيْ وَحُزْنِيْ إلَی اللهِ… ﴾ وغیرہ لکھ کر لگا رکھی ہیں ! آخر کیوں … اتنا بڑا سکالر، اتنی اہم ہستی، کئی مقتدر شخصیتوں اور گھرانوں کااُستاد، جس کے قیمتی حوالے سینکڑوں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو سند دلوا چکے، جس کے قیمتی مواد سے بھرے ہوئے مضامین بے شمار رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بن چکے اور جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یہ بات ثابت کرنے میں کھپا دیا کہ ”سائنس جو کچھ آج بتا رہی ہے اور جو کچھ ابھی وہ بتائے گی، قرآن نے وہ سب کچھ آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا۔“ مگر آج وہ جس کسمپرسی کی حالت میں پڑا کراہ رہا ہے اور درودیوار کوگواہ بنا رہا ہے وہ صرف قابل رحم ہی نہیں بلکہ ہر علم دوست کے لئے باعث ِندامت بھی ہے کہ آج وہ بے بسی کے عالم میں زندگی کی آخری گھڑی کا انتظار کررہا ہے ،کیونکہ کچھ مفاد پرست لوگ (صرف اس انتظار میں تھے کہ کب فوت ہوں اوران کی دس ہزار کتابوں پر قبضہ کر لیا جائے؟)… خیر وہ وقت بھی آگیا… وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل انہوں نے اپنے بھائی (عین الحسن صاحب) کو اپنی ناسازیٴ طبع (پیٹ کی تکلیف) کی خبر دی تو وہ اُنہیں شیخ زید ہسپتال لے گئے مگر وہاں بھی ڈاکٹروں اور متعلقہ عملے نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ ناقابل بیان ہے۔ آخر وہاں سے اُنہیں واپس گھر لے جایا گیا کہ اس ہسپتال سے تو گھر اچھا تھا مگر صحت بدستور بگڑتی گئی اور آخرکار انہیں فوجی فاوٴنڈیشن ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن جیسا انتہائی مرحلہ تجویز کیا۔بہر حال آپریشن ہوا، خون کی کمی بڑھ گئی، آکسیجن بھی لگاناپڑی اور کمزوری تو پہلے ہی بہت تھی، ڈاکٹرسمیت بھائیوں کی آخری کوشش تک سب کچھ بے سود رہا۔ آخر کار وہ ۲۰ جنوری۲۰۰۴ء بروز منگل اپنی تمام ذہنی کوفتوں اور جسمانی تکلیفوں اور آزمائشوں سے نجات پاتے ہوئے اللہ ربّ العٰلمین کے حضور پیش ہوگئے ۔ إنا لله وإنا إلیہ راجعون وائی بلاک ڈیفنس،لاہور کی جامع مسجد میں اُن کی نماز ِ جنازہ ادا کی گئی اور ڈیفنس کے قبرستان میں ہی اُنہیں سپردِ خاک کیا گیا، یوں قرآن اور سائنسی تحقیقات کا ایک درخشندہ ستارہ ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا ۔ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی کروڑوں رحمتیں اور نازل فرمائے۔ آمین! ان کے جنازہ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کے تعلق داروں اور رابطوں پر مشتمل |